سندھ کے دو شہر کھجوروں کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ایک دریائے سندھ کے کنارے والا خیرپور اور دوسرا ٹھٹھہ کے قریب پاکستان کی بہت بڑی جھیل کلری کے کنارے والا شہر جھمپیر! پاکستان کی پہلی شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والی کرشنا کولہی کا تعلق تو صحرائے تھر سے ہے مگر اس قبیلے کی مقتول عورت سومری کولہی کا تعلق جھمپیر سے تھا۔کرشنا کولہی تو اب بہت بڑی شخصیت بن گئی ہے۔ مگر سومری کولہی کا مقدر ایسا نہیں تھا۔ وہ عورت جس کا مرد کچھ عرصہ قبل فوت ہوگیا تھا اور وہ اپنے چار بیٹوں کا پیٹ بھرنے کے لیے دن بھر محنت مزدوری کرتی تھی؛ گزشتہ روز اس عورت اور اس کے چار بیٹوں کی لاشیں اس جھونپڑی سے برآمد ہوئیں جہاں وہ ایک عرصے سے رہتے تھے۔ ایک غریب اور چار بیٹوں کی ماں کو ان کے چاروں بیٹوں سمیت کون قتل کرسکتا ہے؟ وہ انسان نما وحشی کون ہیں؟ اب تک ٹھٹہ پولیس اس گتھی کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ ایک غریب عورت اپنے چار بیٹوں کے ساتھ قتل کی جائے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ قتل کی اس وردات کو خودکشی کا رنگ دینے کے لیے ڈرامہ کیا جائے۔ سومری کولہی اور ان کے بیٹوں کی موت سانس رکنے سے ہوئی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق کسی نے ان کا قتل گلا دبا کر کیا ہے مگر قتل کرنے کے بعد ان سارے لاشوں کے منہ میں زہر انڈیلا گیا۔ وہ زہر جو ان کے گلے سے بھی نہیں اترا۔ اس افسوسناک اور وحشی واردات کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اس خبر کو سندھی میڈیا نے تو کچھ کوریج دی مگر قومی میڈیا میں وہ واردات اس طرح سے رپورٹ نہ ہوئی؛ جس طرح سے یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ جرم کی اتنی ڈرامائی واردات کو اہمیت نہ ملنے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ سومری کولہی ایک غریب عورت تھی۔ اس کی اور ان کے بیٹوں کی لاشیں ایک جھونپڑی سے برآمد ہوئیں۔ اگر یہ لاش بڑے بنگلے سے بر آمد ہوتے تو میڈیا اقتداری ایوانوں ہلا کر رکھ دیتا۔اگر یہ واقعہ کسی ایم پی اے یا ایم این اے یا سینیٹر کے گھر میں ہوتا تو بار بار بریکنگ نیوز سن کر حکومت بدحواس ہوجاتی۔ مگر یہ غریب اور فرش نشیں لوگ تھے۔ یہ لوگ ویسے بھی دھرتی پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کے لیے نہ تو بلاول کا بیان آیا اور نہ کسی وزیر نے دکھیاری فیملی سے ملاقات کی۔ سینیٹر سسی پلیجو کا تعلق بھی اس علاقے سے ہے اور وہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے بہت سرگرم رہتی ہیں مگر اس نے بھی اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا۔ کوئی بھی ان کولہیوں کے گھر نہیں گیا۔ کیوں کہ وہاں غربت کی بدبو ہے۔ وہ جھونپڑی ایک شکستہ آئینے کے مانند ہے جس میں ہر وزیر اور ہر مشیر اپنے ضمیر کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ سندھ میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سومری کولہی اور اس کے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ان کے منہ میں جس طرح زہر انڈیلا گیا اس کا بھی پورا پس منظر ہے۔تھر اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں جہاں پر شیڈول کاسٹ کے لوگ بستے ہیں وہ غربت سے تنگ آکر خودکشیاں کرتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر زمینداروں کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں اور کم آمدنی کی وجہ سے یہ وڈیروں کے مقروض ہوجاتے ہیں اور جب یہ لوگ نہ قرض ادا کرسکتے ہیں اور نہ وہاں سے نکل سکتے ہیں تب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کی راہ لیتے ہیں۔ وہ عام طور یا تو درخت میں رسی لٹکا پر اپنا خاتمہ کرتے ہیں یا کھیتوں میں فصل پر چھڑکانے والی زرعی دوا پی کر اپنے آپ کو ختم کردیتے ہیں۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ سومری کولہی کے قتل کی سازش ان دنوں کے دوران تیار ہوئی جس دوران ہمارے میڈیا پر ’’عورت مارچ‘‘ کے حوالے سے بہت شور تھا۔ سندھ میں عورت مارچ کی ریلیاں جوش و خروش سے نکل رہیں تھیں۔ سکھر میں تو 8 مارچ سے ایک دن قبل مشعل بردار جلوس بھی نکالا گیا۔ مگر اس نعروں اور اس خطابات سے غریب خاندانوں کو کوئی مدد نہ مل پائی۔ ان مشعل بردار جلوسوں سے کسی جھونپڑی سے غربت کی تاریکی ختم نہ ہو سکی۔وہ عورتوں کو محفوظ معاشرہ میسر کرنے والے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ خود تو بہت محفوظ تھے اور ہیں مگر عورت مارچ کے ایک دن کے بعد سومری کولہی کی لاش چار بیٹوں کے لاشوں سمیت میڈیا کی زینت بنی۔ اس واقعہ پر کسی تحریک نسواں نے نہ جلوس نکالا اور نہ پریس کانفرنس کو خطاب کیا۔نہ حکمرانوں سے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کی جائے اور نہ سومری کولہی کے خاندان سے ہمدردی کرنے کے لیے آگے آئے۔ سومری کولہی کی لاش چار بیٹوں کے ہمراہ دفن ہوچکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے پیش آنے والی قیامت خیز وارات کی خبر بھی مٹی میں مل گئی ہے۔ یہ کالم ایک فریاد کی طرح شائع ہوا ہے۔ یہ فریاد اب صرف سندھ تک محدود نہیں۔ یہ فریاد اب پورے ملک میں گونج رہی ہے۔ کیا یہ گونج بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی؟ کیا یہ فریاد وزیر اعظم کے گھر یا دفتر کے دروازے پر دستک دے گی؟ کیا وفاقی حکومت کی طرف سے اس مقتول کولہی عورت کے ساتھ انصاف کے لیے کوئی آرڈر جاری ہوگا؟وہ کولہی عورت جس کا نام سومری تھا۔ وہ کولہی عورت کولہی تو تھی مگر کرشنا نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی نے جب عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کرشنا کولہی کو سینیٹر بنایا تھا تب ان ہی صفحات پر راقم الحروف نے لکھا تھا کہ کیا کرشنا کولہی کو سینیٹر بنا کر سندھ کے شیڈول کاسٹ کے ساتھ انصاف کا سلسلہ شروع ہوگا؟ میں اس کالم میں اقلیت کے حوالے سے کچھ نہیں لکھ رہا۔ کیوں کہ بات اقلیت کی نہیں۔ اقلیت میں تو وہ ہندو بھی آجاتے ہیں جو اپنے علاقوں کے مسلمانوں سے زیادہ امیر اور پر اثر ہیں۔ میں تو اس شیڈول کاسٹ کی بات کر رہا ہوں جن کو سندھ کے ہندو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان کی مذکورہ حیثیت تب تک ہوتی ہے جب تک وہ اعلی عہدوں پر نہیں پہنچتے۔ کرشنا کولہی کے لیے نہ صرف پیپلز پارٹی کے ہندو بلکہ مسلمان بھی آنکھیں بچھاتے ہیں جب کہ سومری کولہی کے لیے کسی کے دل میں ہمدردی کی اتنی ہلکی لہر بھی نہیں اٹھتی جتنی ہلکی لہربغیر ہوا کے کلری جھیل کے سطح پر اٹھتی ہے۔