یہ کہانی تو ہے گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک ان پڑھ شکرے نوجوان کی، لیکن آپ تھوڑا سا غور فرما لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ تو شاید پاکستانی سیاست کی داستان ہے اور اگر آپ مزید گہرائی میں چلے جائیں تو اسی کہانی میں امریکہ، روس اور دوسری بڑی عالمی طاقتوں کی طے شدہ پالیسیاں بھی آپ کے سامنے آ جائیں، لگتا ہے جیسے یہ دنیا ہی گلیوں، محلوں کے چھوٹے چھوٹے بدمعاشوں کی پالیسیوں پر چل رہی ہے۔ عالمی سیاسیات اور اسی عالمی سیاست کے درخت پر کچھ پتے ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر ہمارے جیسے لوگوں کے نام بھی لکھے ہوتے ہیں، وہ پتے جو پت جھڑ کا ایک موسم بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود چونکہ ہم انسان ہیں اور مزاحمت انسانوں کی سرشت میں لکھی ہوتی ہے جو پت جھڑ میں بھی اسے ٹہنیوں سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ ٭٭٭٭٭ جس کردار کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں ،اس کے دونوں بڑے بھائی جنہوں نے بہت نام اور بہت مال کمایا تھا تو کئی سال پہلے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، وہ اب خود کہاں ہے؟ زندہ ہے یا مر چکا ہے؟ یہ مجھے علم نہیں، اس نوجوان کا نام شجاعت اور نک نیم تھا شہتی، اس کے بڑے بھائیوں عنایت حسین بھٹی اور کیفی نے اس کو راہ راست پر لانے، اس کی بری صحبتیں اور عادتیں چھڑوانے کیلئے اسے اپنی ایک پنجابی فلم کا ہیرو بھی بنا دیا تھا لیکن انہیں اپنے چھوٹے بھائی کو شریفانہ زندگی کی جانب لانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی ، سنا ہے شجاعت عرف شہتی تندور پر روٹیاں لگانے والی ایک لڑکی کے عشق میں قتل بھی کر بیٹھا تھا، بڑے پیسے لگے تھے اس کو مقدمے سے نکلوانے کے لئے، وہ مجھ سے پہلی بار ملا تھا، موسیقار ماسٹر عبدللہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ ، دونوں’’کریمنل انٹلیکچوئل‘‘ تھے ،،،،، ایک دن ہم کچھ ساتھی بیٹھے ملکی حالات اور معاملات سیاست پر بات کر رہے تھے کہ وہ دونوں بھی اس مجلس میں آن ٹپکے،، دوچار منٹ تو خاموش رہے پھر ماسٹر عبداللہ کا بھائی اچانک مجھے مخاطب کرکے بولا، باؤ جی، اپنی صحت کادھیان رکھا کرو، ورزش کیا کرو،دو ٹائم دیسی گھی ضرور کھاؤ روزانہ، ،، ورنہ کسی دن کوئی آپ کی جیب سے پرس نکال کر بھاگ گیا تو آپ اس کو پکڑ بھی نہ سکو گے، تنخواہ دار آدمی ہو ، مہینہ کیسے گزارو گے؟،، ہم حیران ہوئے کہ یہ مشیران طاقت،،، کہاں سے پیدا ہوگئے؟ ہماری یہ حیرانی دور کی ہمارے ساتھ پہلے سے بیٹھے ہوئے اختر حبیب نے ، وہ دونوں اسی کے جاننے والے تھے اور اسی سے ملنے آئے تھے۔ اختر حبیب نے ان کا ہم سے تعارف کرایا تو وہ شیر ہو گئے، اب شجاعت عرف شہتی اونچی آواز میں بولا،،،،،، آپ لوگ عالمی سیاست پر بات تو کر رہے ہو لیکن لگتا یہ ہے کہ آپ میں سے کسی کو سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔ سیاست سیکھنی ہے تو ہم سے سیکھو، ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے آپ کو پتہ چل جائیگا کہ سیاست ہوتی کیا ہے؟ شجاعت عرف شہتی گونجدار آواز میں بول رہا تھا اور ہم سب ہمہ تن گوش تھے،،، گجرات میں ہمارے گھر کے قریبی محلے میں ایک ’’پردھان‘‘ عورت روزانہ گلی میں چارپائی بچھا کر بیٹھ جاتی تھی اور ہر آنے جانے والے کو گھورا کرتی تھی، کوئی اس کے سامنے بول پڑتا تو اسے خوب گالیاں دیتی اور پھینٹی لگاتی ، ایک دن ہماری ایک دوست لڑکی اس گلی سے گزری تو اس عورت نے اس کی بھی پٹائی کر ڈالی، اس وقت ہم سب دوست قبرستان میں بیٹھے تھے ، وہ لڑکی روتی پیٹتی وہیں ہمارے پاس آگئی اور سارا ماجرا سنایا، ہم چار پانچ دوست غصے سے اٹھے اور اس۔۔ پردھان عورت کو جا پکڑا، خوب پٹائی کی اس کی، جب تسلی ہوگئی تو ہم واپس قبرستان آکر بیٹھ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ہمارا ایک اور ساتھی قبرستان والے ڈیرے پر ہانپتا ہوا پہنچا اور بتانے لگا کہ تم جس عورت کی پٹائی کرکے آئے ہو، اس کے حامی بدمعاش تمہارے گھروں کے باہر فائرنگ کر رہے ہیں، یہ سن کرسب جوش میں آگئے، اس سے پہلے کہ ہم اس عورت کے بھجوائے ہوئے بدمعاشوں سے بھڑ نے کے لئے روانہ ہوتے، ہمارے ایک سیانے دوست نے مشورہ دیا ،،،، سب بیٹھ جاؤ یہیں پر، ابھی نہیں جانا وہاں، جب وہ لوگ ہمارے محلے سے واپس چلے جائیں گے تو پھر ہم ان کے محلے میں جا کر جواب دے آئیں گے،یہ واقعہ سنا کر شہتی کہنے لگا،، باؤ جی! اگر وہ ’’سیانا‘‘ ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو وہاں کئی لاشیں گر جاتیں ، ہم جیل جاتے یا مفروری کاٹتے، یہ ہوتی ہے سیاست ، اور سیاست پاکستان کی ہو یا امریکہ کی اصول ایک ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ کئی سال بعد شہتی کے اس’’فلسفہ سیاست‘‘ کی تصدیق کی باغ جناح میں سست رفتاری سے واک کرتے ہوئے دو ضعیف بابوں نے، مگر ذرا مختلف انداز میں،،،،،،، ۔پہلا بابا۔۔اوئے امریکہ نے دوجی وڈی طاقت روس نوں کیویں پھیتی پھیتی کر دتااے؟ دوسرا بابا۔۔،، بدمعاشاں توں سارے ای ڈردے نیں ،پر جدوں کوئی بدمعاش زمین تے ڈگدا اے تے دوجے سارے مل کے اوہنوں ٹھڈے مار مار کے پھیتی پھیتی ای کر دیندے نیں۔ ٭٭٭٭٭ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی رہائش ذیلدار پارک اچھرہ میں تھی، جماعت اسلامی کا ہیڈ آفس بھی اسی عمارت میں تھا، ،ہمارا اسکول قریب ہی تھا،جب کوئی پیریڈ خالی ہوتا تو میں جماعت اسلامی کے دفتر میں جا کر ان کی ورکنگ کا مشاہدہ کرتا رہتا ، وہاں مجھے بہت سے ایسے لوگ بھی ملتے جو مختلف اضلاع سے ماہانہ چندہ جمع کرانے آتے تھے، ایک دن میں مولانا صاحب کے کمرے میں گھس گیا،اس کمرے کا دروازہ عمارت کے صحن کی جانب کھلتا تھا، چھوٹا سا یہ کمرہ ان کی خواب گاہ ہی نہیں آرام گاہ اور سٹڈی روم بھی تھا۔ چھوٹی سی چار پائی کے نیچے صاف ستھرا پان دان پڑا تھا ’’مولانا۔آپ کی جماعت میں لوگ ایماندار کیوں ہیں؟ ہرماہ یہاں چندہ جمع کرانے آ جاتے ہیں؟۔ مولانا نے میرے اس بے تکے سوال کا جواب دینا گوارا نہ کیا ، تکیے کے نیچے ہاتھ گھمایا اور ایک روپے کا سکہ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے، اشارہ کیا ،، اب دفع ہو جاؤ، ۔۔۔۔ کچھ دن بعد میں پھرمولانا صاحب کے پاس چلا گیا، اس سے پہلے کہ میں انہیں سلام کرتا انہوں نے تکیے کے نیچے سے ایک روپے والا سکہ نکالا اور پھر مجھے تھما دیا۔۔ یہ واردات چلی کافی عرصہ تک۔۔۔۔ پھر کئی سال بعد۔ فلموں کی کہانیاں لکھنے کا سودا میرے دماغ میں سما گیا،ان دنوں عنایت حسین بھٹی کی کئی فلمیں ہٹ ہو چکی تھیں ، ایک دن میں بھٹی صاحب کے گھر ان کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک انہوں نے انکشاف کیا ’’میں ایک سیاسی پارٹی بنانا چاہتا ہوں‘‘ دلیل یہ دی کہ بھٹو کی پیپلز پارٹی بائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی ہے۔۔ اور جماعت اسلامی دائیں بازو کی انتہا پسند ’’ میں ایک ایسی پارٹی بناؤں گا جو اعتدال پسند ہو‘‘ بھٹی صاحب نے مجھ سے سوال کیا ’’ کیا آپ میری بھٹو اور مودودی سے ملاقات کرا سکتے ہیں؟‘‘‘میں نے جواب دیا ’’بھٹو تک تو میری پہنچ نہیں ، مولانا سے ضرور ملوا سکتا ہوں۔ میں اگلے ہی دن مولانا کے پاس پہنچ گیا۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا’’’ مولانا، ایک عنایت حسین بھٹی، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔ ’’رات کو لائیے گا‘‘ ’’رات کو،،،،،،،،،،، کیوں مولانا؟ رات کو کیوں؟‘‘ ’’ وہ میرے پاس دن کے وقت آئے تو لوگ بڑی باتیں بنائیں گے‘‘ میں نے بھٹی صاحب کو مولانا کے ریمارکس تو نہیں پہنچائے، البتہ رات کے وقت انکی مولانا سے ملاقات ضرور کرادی تھی۔