کہا جاتا ہے تعلیم مستقبل کا پاسپورٹ ہے۔اور یہ بھی کہ سرمایہ کاری سب سے زیادہ منافع دیتی ہے۔آئن سٹائن نے کیا خوب کہا تھا کہ بیوروکریسی کامیابی کی موت ہے۔ہمارے ممدوح نے پہلے قول کی تصدیق کی اور دوسرے کی نہیں کی۔تعلیم اور بیوروکریسی ان کے شعبے تھے وہ دونوں شعبوں کو ساتھ لے کر چلے۔بیوروکریسی اور تعلیم دونوں شعبہ ہائے حیات میں توازن کی عمدہ مثال سید افسر ساجد ہیں۔ سید افسر ساجد نے شہرت اور عزت ان دونوں شعبوں سے ہی پائی جہاں انہوں نے بالترتیب چھبیس اور اٹھائیس سال گزارے۔چھبیس سال وہ بیوروکریسی کے اہم عہدوں پر رہے اور تین عشرے انہوں نے تعلیم، درس و تدریس اور دانش گاہوں میں گزارے۔اب بھی وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔انگلش اور اردو ہر دو زبانوں میں دسترس ہونے کی وجہ سے کسی زبان میں اپنا نقطہ ِ نظر آسانی سے بیان کرنے پر قادر ہیں۔سید افسر ساجد کو ادب کی سیاحی میں پچاس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا۔کئی خوبصورت نظموں اور ہونٹوں کا ہلانا بھی کسی کام نہ آیا آیا بھی کوئی نام تو وہ نام نہ آیا جیسے شعر کے خالق ہیں۔انگریزی معاصر کے کالم نگار، عالمی ادب اور بین الاقوامی قانون پر گہری نظر رکھنے والے کا کام دقیق نظری کا متقاضی نہ ہو کیا ہو۔بہت سارے مضامین بہت ساری کتب پر تبصرے اور تجزیے انہوں نے کیے۔اب ساٹھ کے قریب کتب پر ان کے مضامین کا مجموعہ تذکرے اور تجزیے کے نام سے شائع ہوا ہے۔یہ مضامین سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، افضل احسن رندھاوا، شہزاد قیصر، مستنصر حسین تارڑ، انور جمال، صفدر سلیم سیال، محسن مگھیانہ اور بہت سارے شعرا اور ادباکی کتب پر تحریر کیے گئے ہیں۔ وہ ادب کے میدان میں محدودے چند ادبا میں شامل ہیں جو نہ صرف ادب میں ایک اپنی رائے رکھتے ہیں بلکہ اس پر قائم بھی رہتے ہیں۔اسے اپنے کہے پر پہرہ دینا کہنا زیادہ مناسب ہے۔اب دوبارہ وہ اپنے اصل شعبے کی طرف لوٹے۔علم کی دولت حاصل کرتے ہیں اور اس کی تقسیم کرتے ہیں۔ علم واحد دولت ہے جو تقسیم ہوتی ہے تو بڑھتی ہے۔زندگی اور عمر کے زوال کے بارے میں سوال پر کہا ’’زندگی کبھی زوال آمادہ نہیں لگی کہ زندگی کے پورے در تو کبھی وا ہی نہیں ہوتے‘‘۔یہ ایک مطمئن اور کامیاب انسان ہی کہہ سکتا ہے۔توازن ان کی شخصیت (خواہ وہ ادبی ہو یا شخصی ) کا خاصہ ہے۔اوائل عمری ہی سے ادب ِ خالص اور ترقی پسندی کو برابر اہمیت دی۔ دونوں کے امتزاج کو ترجیح دی۔زیر ِبحث تصنیف ان کے بقول ان کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے ادبی کتب پر تبصروں اور ادیبوں اور شاعروں کی شخصیت و فن کے جائزوں کی شکل میں قلم بند کیے ہیں۔جو ڈاکٹر وزیر آغا کی مجلس نشین ہو اس کا نقطہ ِ نظر بھی وسیع اور نظریہ ِ ادب تو خالص ہونا لازم ہے۔ ’’ نکتے‘‘ عابد خورشید کی ادب پروری اور ادیب کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ وہ یوں کہ نکتے ریاض احمد کے پنجابی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ انہوں نے ’’پنجابی شاعری دی ونڈ‘‘ میں کلاسکس کے بعد کی شاعری کو دیکھا ہے۔اس میں افضل احسن رندھاوا، راشد حسن رانا، احسان باجوہ، نجم حسین سید، نادر جاجوی، پیر فضل گجراتی، احمد راہی، نذر حسین بھٹی، اکرام مجید اور کئی اہم شاعر موجود ہیں۔ پنجابی زبان میں تراجم میں بھی جو تھوڑا بہت کام ہوا ہے اس کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔احمد سلیم نے شیخ ایاز کی سندھی شاعری کا ترجمہ ’’جو بیجل نے آکھیا‘‘ مائوزے تنگ اور افروایشائی شاعروں کا ترجمہ مسعود منور نے کیا تھا۔اسیر عابد نے غالب کا ترجمہ کر کے پنجابی کا مان بڑھایا ہے۔اس سے پہلے جو تراجم تھے وہ محض نام آوری کی کوشش تھی اور ان ترجموں میں تخلیق سے زیادہ تصنع کا مزاج حاوی تھا۔یہ ایک بے مثال کتاب ہے جس میں قرون ِ وسطٰی سے لے کر بیسویں صدی کے آخری دہے تک کے شعرا کو کور کیا گیا ہے۔ہمیں انتہائی دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ’’ نکتے‘‘ کو محبان ِ پنجابی زبان اور شعر و ادب نے ذاتی پلے سے شائع کروایا ہے۔اس سے بڑا ظلم شاید ہی کسی اور زبان اور کسی اور زبان کے لکھاریوں سے ہو رہا ہو۔پنجابی زبان ہمیشہ سے حکمرانوں کے گلے سے نیچے نہیں اترتی۔پنجابی زبان کے لکھاریوں سے نہیں معلوم کون سا قصور سرزد ہوا ہے کہ انہیں معاف کیا ہی نہیں جا رہا۔حکمرانوں نے پنجابی زبان کے ادب کی ترویج کے لیے جو ادارے بنائے ہیں وہ کس مرض کی دوا ہیں؟۔جہاں صبح و شام کوئی کام نہیں ہوتا۔ اگر وہ ایسے ماسٹر پیس بھی شائع نہیں کر سکتے تو بہتر ہے یہ ادارے بند کر دیے جائیں۔ویسے بھی چند ادبی اداروں کے سربراہان موجود نہیں ہیں مگر ان کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ایسے ادارے کاغذوں میں تو بہت اچھے لگتے ہیں کارکردگی کے حساب سے بیکار ہیں۔ایسی کتابیں بھی اگر یہ لوگ نہیں چھاپتے تو ان کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ان اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ کم از کم پنجابی نثر کی ہر سال ایک سو کتب شائع کریں۔اس سے پنجابی لکھاری نثر کی طرف متوجہ بھی ہوں گے۔۔لکھاری تحقیق بھی کریں اور شائع بھی کروائیں۔یہ ظلم بند ہونا چاہیے۔ اردو اور پنجابی زبان کے نام پر دھندا بند کرنا ہو گا۔ چوتھے دور کے ایک شاعر اصغر عابد کی کتاب’’ برف دا سیک‘‘ سے ایک ماہیا اسمانوں جِن لتھا وے صدر خروشچیفا تیڈا ویٹو گِھن لتھا۔ پنجابی زبان کی ترویج وقت کا اہم تقاضا ہے کہ یہ دنیا کی بڑی زبانوں سے ایک ہے۔