معیشت کا آدمی نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ پروفیشنلزم اور پرفیکٹزم کازمانہ ہے۔اعدادو شمار کے ہیر پھیر میںبڑک مار دی تو صحافت میںچار دہائی بِتانے کے بعد معافی کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔اب یہی دیکھیںکہ ہمارے عالمی شہرت کے مالک مولانا طارق جمیل دعائے خیر کرتے کرتے ’’میڈیا‘‘ کی بات کر بیٹھے ۔ ۔ ۔ یقینا ،اُن کی بڑائی دیکھیں کہ اگلے ہی دن ہاتھ جوڑ کر اسکرینوں پر معافی مانگی۔ ۔ ۔ مگر اب ان کی نیک نیتی سے معافی کو بھی متنازعہ بنادیا گیاکہ خواتین سے بھی اسی طرح معافی مانگیں ۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ حضرت مولانا نے اس کے بعد خود پر خاموشی مسلط کرلی ہے۔ اور صرف رمضان شریف کے فضائل پر ہی بیک وقت تین چینلوں پر خطابت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔مگر مولانا اب اتنے گئے گذرے بھی نہیں ۔ ۔ ۔ اگر ایک بیان یا کالم یا ٹوئیٹ اُن کے خلاف آتا ہے تو جواب میں منہ توڑچار جواب آتے ہیں۔ مولانا پر الزام اور جوابی الزام کو یہیں چھوڑتا ہوں۔ مگر میڈیا کو او ر ہاں ،قارئین اور ناظرین کو بھی اب ’’چٹ پَٹی‘‘ سنسنی خیز خبروں کی لت لگ گئی ہے۔ کسی دو بڑوں کی شادی ہوجائے ،خبر نہیں۔ لیکن علیحدگی ہوجائے تو بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔اب یہی دیکھیں ۔ ۔ ۔ سال اوپر سے ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی ترجمان تمام اسکرینوں پر دن رات کے 24گھنٹوں میں 12بات تو ضرور جلوہ افروز ہوتی تھیں۔ مگر اُنہیں گئے ابھی 24گھنٹے بھی نہیںہوئے کہ شاعر کی زبان میں : اب اُن کو دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں یہ لیجئے ۔ ۔ ۔ کورونا وائرس کے سبب حکومت اور قوم جس شدید معاشی بحران سے گزر رہی ہے ،اُسے تو پیچھے ہی چھوڑ آیا کہ مئی کامہینہ سال کا گرم ترین مہینہ تو ہوگا ہی مگر خود وزیر اعظم پاکستان پیشن گوئی کررہے ہیں کہ ’’کورونا وائرس ‘‘ کا اصل آتش فشاں تو مئی کے دوسرے ہفتے میں بیٹھے گا اور ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ اس وقت جب ساری دنیا میں کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 30لاکھ اور اس سے ہونے والی اموات 2لاکھ سے اوپر ہوگئی ہیں۔ ۔ ۔ تو پاکستان میں کورونا سے متاثرین کی تعداد 14ہزار اور اموات3سو کے لگ بھگ پہنچی ہیں۔جو ابھی سنگل پوائنٹ سے بھی کم ہیں۔ مگر ’’سنگل پوائنٹ ‘‘ پر معاشی صورت ِ حال کی یہ سنگینی ہے تو (خدا اس بلا سے محفوظ رکھے) اگر ماہرین کی پیشنگوئی کے مطابق متاثرین کی تعداد لاکھ سے اوپر اور اموات ہزار کے قریب پہنچیں تو کیا۔ ۔ ۔ ’’سیاسی اکھاڑ پچھاڑ‘‘ اور حزب ِ مخالف سے دست و گریباں یہ حکومت اس کا مقابلہ کرسکے گی؟ مگر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب ہمارے وزیر اعظم کو 15جنوری کو یعنی تین ماہ پہلے دوست ملک چین کی حکومت نے آگاہ کردیا تھا کہ کورونا کا عذاب ہماری جانب بڑھ رہا ہے تو اس سے نمٹنے کے لئے کیا تیاریاں کی گئیں؟ یہاں سوال نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے پر بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ 2005ء کے زلزلے کے بعد اسے مستقل بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا۔اور ہر سال اس کیلئے بجٹ میں ایک معقول رقم رکھی جاتی ہے۔چلیں ،حکومت کو تو چھوڑیں کہ بدقسمتی سے ہماری ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح اپنے اقتدار کا دوام ہے۔مگر این ڈی ایم اے کو تو ایسے ہنگامی حالات کے لئے کم از کم مہینے بھر بعد تو تیاری پکڑ لینی چاہئے تھی، کہ 22کروڑ آبادی میں ابھی ہم 50ہزار کورونا ٹیسٹ کر پائے ہیں۔جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔۔۔اسکرین پر ایک چینل بریکنگ نیوز دے رہا ہے کہ کراچی کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں کورونا کے مریضوں کو جس وارڈ میں رکھا گیا تھا۔ ۔ ۔ اُس میں ایک مریض نے داد رسی نہ ہونے پر تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ ۔ ۔ جس طرح کے مستند معاشی اعدادوشمار سامنے آرہے ہیں۔ وہ مستقبل کا انتہائی بھیانک منظر نامہ پیش کررہے ہیں کہ جس کی ایک مثال اسپتال سے چھلانگ لگانے والے اس نوجوان کی ہے کہ 24گھنٹے بعد بھی سندھ سرکار نے اس المناک سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف بیان کی حد تک بھی کاروائی کرنے کا عندیہ نہیں دیا ہے۔وزیر اعظم نے ملکی لاک ڈاؤن سے پہلے ہی اس بات کا اعتراف کرلیا تھا کہ انہیںکورونا وائرس سے زیادہ لاک ڈاؤن کی صورت میں جو بے روز گار ی اور بھوک حملہ آور ہوگی،اُس کا خوف ہے۔کہ وطن ِ عزیز میں 73سال بعد بھی ہماری تمام سویلین اور فوجی حکومتوں کی سیاسی اور معاشی پالیسیوں کے سبب 40 فیصد آبادی یعنی 8کروڑ عوام کو اپنے گھروں کا چولہا جلانے کے لئے روزکی آمدنی پر گذارا کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی آمدنی عالمی معیار کے مطابق ایک ڈالر یعنی ڈیڑھ سو روپے سے کم ہے۔ ۔ ۔ جہاں تک احساس پروگرام یعنی بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ کو 12ہزار روپے تقسیم کرنے جیسا حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے جیسے اقدام کا تعلق ہے تو یہ دراصل ایک کروڑ 20لاکھ وہ خواتین ہیں جنہیں پیپلز پارٹی کے دور میں رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ ۔ ۔ حال ہی میں خود حکومت کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ کم از کم 18لاکھ مطلقہ اور بیوہ خواتین کے نام پر برسوں سے سرکاری اہلکار یہ رقم ہڑپ کررہے تھے۔ ۔ ۔ چلیں تسلیم ،کہ 60فیصد خواتین تک بھی یہ 12ہزار کی رقوم پہنچ جاتی ہیں۔تو اسے قابل ِ ستائش ہی سمجھا جائے گا ۔مگر 8کروڑ سے اوپر دیہاڑی لگانے والوں کے لئے کیا کوئی مکینزم تیا رکیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ خبر کے مطابق اکنامکس کوآرڈینیشن کمیٹی نے 50ارب روپے کی رقوم دیہاڑی لگانے والوں کے لئے مختص کی ہیں۔یہ کب،کیسے تقسیم ہوں گی؟ تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ دوسری جانب گندم ،چینی میں اربوں روپے کے گھپلے کرنے والے خان صاحب کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں۔ ۔ ۔ (جاری ہے)