آفتاب جاوید نے ایف جی اڈلٹ ویلفیئر انسٹی ٹیوٹ پاکستان میں’کرسمس امن مشاعرے‘پہ مدعو کیا۔مشاعرے کا مقصد معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور تعصب کے خاتمے اور مسیحی برادری کا مسلمان برادری کو امن کا پیغام دینا تھا،یہ بہت مثبت رویہ ہے کیوں کہ پاکستان میں پے در پے ہونے والے ایسے واقعات جنھوں نے ہماری امن کی کوششوں کو داغ دار کیا اور عالمی سطح پر یہ پیغام دینے کی ناکام کوشش کی کہ پاکستان نفرت کی آماج گاہ ہے ،ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ عالمی سطح پر یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا ہے‘انھیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے،حالانکہ یہ سب غلط ہے۔پاکستان کی امن کے فروغ کے لیے قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ پاکستان میں موجود چند متعصب گروہ یاافراد‘ جنھوں نے بیرونی فنڈنگ سے نہ صرف یہاں نفرت کو ہوا دی بلکہ امن کے خلاف پاکستان کی کو ششوں کو ہمیشہ داغ دار کیا‘پاکستان کا امن پسند چہرہ مسخ کرنے والوں نے یا تو اقلیتوں کا کارڈ کھیلا یا پھر عورت مارچ‘کبھی یہ کہا گیا کہ ہم نے یہاں مسیحی برادری یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‘انھیں رسومات و عبادات کی اجازت نہیں دی اور انھیں دل سے قبول نہیں کیا۔ کبھی لبرلز و سیکولرز نے ’مظلوم عورت‘ کا کارڈ کھیلا اور ہمیشہ یہی تاثر دیا کہ پاکستان میں عورت غیر محفوظ ہے‘اسے حقوق نہیں دیے گئے اور اس کو ظلم و زیادتی کا ہی نشانہ بنایا جاتا رہا حالانکہ یہ سب من گھڑت تھا۔اکا دکا واقعات کو بنیاد بنا کر پورے خطے اور ملک کو تنقید کا نشانہ بنانا اور علمی سطح پر پاکستان کا منفی چہرہ پیش کرنا‘انتہائی افسوس ناک رویہ ہے جسے روکنے کے لیے ہر مکتبہ فکر کو انفرادی اور اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں تین اعشاریہ ترپن(3.53) فیصد اقلیتیں ہیں‘اس میں ہندو 2.14فیصد کے ساتھ سرفہرست ہیں جبکہ مسیحی برادری 1.27فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے‘باقی سکھ ‘قادیانی ‘بدھ ‘یہودی اور جین مت وغیرہ ہیں۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘اس میں سرفہرست مسیحی برادری کو رکھا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ ہمارا رویہ ناقابل بیان ہے‘ہندو برادری جو پاکستان میں سب سے بڑی اقلیت ہے‘ان حوالے سے کبھی کوئی منفی پراپیگنڈا سامنے نہیں آیا‘ایسا کیوں ہے؟۔اگر مسلمان متشدد ہیں اور امن کے خواہش مند نہیں ہیں تو وہ باقی اقلیتوں کے ساتھ پر امن کیسے رہ رہے ہیں اور صرف ایک برادری کے ساتھ نالاں کیوں ہیں؟میں سمجھتا ہوں یہ انتہائی غلط تاثر ہے کہ مسلمان امن پسند نہیں اور وہ اقلیتوں کو قبول نہیں کرتے۔پاکستان میں ہر سال کرسمس انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور سرکاری سطح پر بھی کیک کاٹنے کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں جن میں وزیر اعظم اور صدر سمیت وفاقی وزراء شریک ہوتے ہیں۔عوامی سطح پر بھی بازاروں اور گلیوں کو سجایا جاتا ہے اور ہمارے مسیحی دوست بلا جھجک کرسمس کی تقریبات کو انجوائے کرتے ہیں اور یہی امن کا پیغام ہے۔ اس حوالے سے مذہب کا بنیادی کردار رہا ہے‘اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات شامل رہی ہے کہ ہر انسان کو مذہبی آزادی ہے‘وہ اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی بسر کر سکتا ہے۔اسلام کا پیغام انبیائے کرامؑ‘صحابہ کرامؓ اور اولیاء اللہ نے دنیا کے خطے خطے تک پہنچایا‘اب یہ ہمارا انفرادی رویہ یا سوچ ہے کہ ہم کس مذہب اور عقیدے کو اپناتے ہیں۔ایسے بہت سے کام اور رویے جو پاکستان مسلمانوں کے لیے ممنوع ہیں‘ مسیحی برادری کو سرکاری سطح پر اجازت دی گئی ‘اس سے بڑی امن کی کوشش کسے کہا جاتا ہے۔پاکستانی سرکار اور مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے رویے اور عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں رہنا والا ہر شہری برابر ہے‘اسے وہ سب حقوق دیے جاتے ہیں جو ایک پاکستانی کو دیے جانے چاہیں۔میں پہلے بھی عرض کر چکا کہ اکادکا واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کے امن پسند چہرے کو مسخ کرنا قابل ِقبول ہے۔ مجھے ریورنڈ ڈاکٹر لیاقت قیصر کی یہ کوشش انتہائی پسند آئی کہ وہ ہر سال چرچ گرائونڈ میں ایک بڑی سطح کا مشاعرہ منعقد کرتے ہیں‘پاکستان کے چنیدہ شعراء کو مدعو کرتے ہیں اور ان سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا! شاعری کے ذریعے بھی امن کے پیغام کو فروغ دیں‘ پاکستانیوں کو بتائیں کہ ہم سب بھائی ہیں‘ ہمارا مذہب مختلف ہو سکتا ہے مگر ہمارا ملک ایک ہے‘ہم سب اس خطے سے محبت کرتے ہیں کیوں کہ اس نے ہمیں پہچان دی‘ہمیں آزاد زندگی گزارنے کی اجازت دی‘ہمیں ہمیشہ محبت دی اور ہم نے بھی پاکستان اور مسلمانوں سے ہمیشہ محبت کی‘ایک قلم کار کو محبت ہی کرنی چاہیے ۔ ریورنڈ ڈاکٹر لیاقت قیصر اور آفتاب جاوید (گیان)کی مشترکہ کوششوں سے ہر سال کرسمس کے موقع پر لاہور کے مختلف چرچز شعروں سے گونج اٹھتے ہیں‘شاعر اپنے کلام کے ذریعے امن کا پیغام دیتے ہیں اور اخوت ‘بھائی چارے اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔