پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ عمران خان حکومت نے بجٹ میں کم آمدنی والے طبقے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاول نے یہ بات تنقیدی رنگ میں کہی لیکن اس میں غلط کیا ہے۔ ایثار اسی سے مانگا جاتا ہے جو ایثار کرسکتا ہو اور پاکستان میں غریب اور کم آمدنی والا طبقہ ہی ایثار کرتا آیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے غریب طبقے پر اتنی زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ اعزاز عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ اس نے ایثار مانگنے کے لیے غریب طبقے کو پوری طرح چن لیا۔ عمران خان نے گزشتہ اڑھائی برسوں میں دسیوں بار یہ بات کہی کہ قوم کو ایثار کرنا ہوگا‘ قوم کو قربانی دینی ہوگی، تو صاف ظاہر ہے قوم سے مراد یہی غریب اور کم آمدنی والا طبقہ ہے اس سے ایثار لیا جارہا ہے‘ اس سے ایثار لیا جاتا رہے گا اور بجٹ کے بعد اس لیے جانے والے ایثار میں معقول ترین اضافہ ہو جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ گزشتہ اڑھائی برسوں میں غریب طبقے نے خاصے ایثار سے کام لیا ہے۔ خاصے کا حکم اتنا ہے کہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے لیے کافی ہے۔ اس ایثار کی تفصیل دینا ممکن نہیں کہ اس کے لیے دس پندرہ کالم بھی کم پڑیں گے لیکن جستہ جستہ جھلکیاں کچھ یوں ہیں‘ ملاحظہ فرمائیے۔ (بشکریہ سرکاری ادارہ شماریات) دال ماش میں فی کلو 111 روپے 50 پیسے کا ایثار غریبوں سے لیا گیا۔ دال مسور کی مد میں ایثار کا حکم 45 روپے 41 پیسے کا رہا۔ مونگ کی دال میں ایثار کی قدر 110 روپے 52 پیسے‘ دال چنا میں 33 روپے 3 پیسے‘ آٹا کا تھیلا خریدنے کے لیے غریب کو 373 روپے پچاس پیسے کا ایثار کرنا پڑا (یہ اعداد و شمار ایک ہفتہ پہلے کے ہیں‘ اس دوران آٹا تھیلا میں ایثار کی شرح میں مزید اطمینان بخش اضافہ ہو گیا ہے)۔ دودھ فی لٹر 23 روپے 16 پیسے کا ایثار‘ انڈوں میں فی درجن 51 روپے 68 پیسے کا اور کیلے کی مد میں 72 روپے 26 پیسے کا ایثار غریبوں کو کرنا پڑا۔ چاول فی کلو 17 روپے ایثار کے متقاضی ہیں۔ گھی کا اڑھائی کلو کا ڈبہ 224 روپے کے اضافی ایثار کے ساتھ دستیاب رہا‘ گڑ میں ایثار کا حکم 48 روپے 21 پیسے رہا۔ بجلی استعمال کرنے کے لیے غریب آبادی کو 8 روپے فی یونٹ کے بجائے 28 روپے دینا پڑا۔ یعنی یونٹ ایثار کی مالیت 20 روپے رہی۔ دوائوں میں ایثار کا حکم 6 گنا رہا۔ یعنی جو دوائی پہلے غریب آدمی سو روپے کی لیتا تھا اب چھ سو کی لیتا ہے۔ علی ہذا لقیاس‘ ایثار کے تو ڈھیر غریبوں نے لگا دیئے اور اب ان ڈھیروں میں بہت ہی شاندار اضافہ عمران خان بجٹ میں کرنے والا ہے۔ ٭٭٭٭٭ غریب آدمی کے ایثار کے میدان اور بھی ہیں۔ عمران حکومت نے آتے ہی جو تعمیری سرگرمیاں شروع کیں‘ ان کے تحت سب سے پہلے غریبوں کے جھگے جھونپڑے گرائے گئے تاکہ نیک دل پراپرٹی سوسائٹیوں کی مدد ہو سکے جن کو لغت سے ناواقف حضرات مافیا کا نام دیتے ہیں۔ تاریخ کا سب سے بڑا رفاہی منصوبہ راوی سٹی کے نام سے بن رہا ہے۔ صدیوں سے اپنی زمین پر بیٹھے لوگوں نے رضاکارانہ ایثار سے کام لیتے ہوئے لاکھوں کی زمین کوڑیوں کے بھائو سرکار کو دے دی۔ عمران حکومت نے غریبوں کے ٹھیے چھابے تھوک کے حساب سے گرائے اور ابھی تک گرا رہی ہے تو یہ بھی ایثار وصولی ہی ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیراعظم نے شکوہ کیا ہے کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی۔ حکومت کے پاس پیسہ ہی نہیں‘ سکول کالج ہسپتال کہاں سے بنائے۔اگرچہ معیشت پٹڑی پر آ چکی ہے‘ پاکستان اوپر جا رہا ہے‘ معاشی ترقی چارفیصد ہوگئی ہے۔ پھر بھی حکومت کے پاس پیسہ نہیں‘ واقعی۔ سکول کالج کہاں سے بنائے۔ بجلی کے بل میں فیول سرچارج کی مد میں صرف 6 ٹیکس دینے والی ناشکری قوم! حکومت نے ہر اس شے پر ٹیکس بڑھا دیا ہے جس پر پہلے سے ٹیکس تھا اور کم تھا اور ہر اس شے پر ٹیکس لگا دیا ہے جس پر پہلے ٹیکس نہیں تھا۔ بچوں کے پیمپر، ٹافی بسکٹ سے کاپی پنسل تک کوئی چیز بچی ہی نہیں، جس پر ٹیکس نہ لگا ہو۔ یہاں تک کہ بیوائوں کے راشن تک ٹیکس لگ گیا۔ پھر بھی واقعی‘ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے‘ سکول کالج کہاں سے بنائے۔ یہاں تک کہ کسی شخص نے پیسے جوڑ جوڑ کر چھوٹا موٹا سا پلاٹ لے لیا اور اب انتظار میں ہے کچھ رقم جمع ہو تو کچھ قرض لے کر وہ اپنا مکان بنائے۔ حکومت نے اس پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ اب وہ ساری عمر یہ ٹیکس ہی دیتا رہے گا۔ مکان بنانے کے لیے کچھ جوڑ نہیں پائے گا‘ مکان بنانے کا سپنا ساتھ لے کر قبر میں اتر جائے گا اور وہیں سکون پائے گا۔ واقعی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے‘ سکول کالج کہاں سے بنائے۔ ماضی کی حکومت کم ٹیکس لیتی تھی‘ بجلی بھی سستی دیتی تھی‘ غیر ملکی قرضے بھی آپ سے کم لیتی تھی‘ دوائیاں بھی ہسپتالوں میں مفت دیتی تھی‘ پھر بھی سکول کالج ہسپتال سڑکیں کارخانے لگاتی تھی تو وہ پیسے کہاں سے لاتی تھی؟ ظاہر ہے چوروں کی حکومت تھی‘ چوری کے پیسے سے یہ سب کام کرتی تھی۔ موجودہ حکومت کے پاس پیسے نہیں‘ واقعی! سکول کالج کہاں سے بنائے۔ ٭٭٭٭٭ شاہ محمود قریشی کا استقبال ملتان میں صلاح الدین ایوبی ثانی کے بینروں سے ہوا۔ حد ہے‘ صلاح الدین ایوبی صاحب بیت المقدس کو آزاد کرا کے آ گئے اور ملتان کے علاوہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ بہرحال‘ قبلہ اول کی آزادی مبارک ہو!