اَنکل سام نے چین کے خلاف تُرپ کا پتہ پھینک دیا ہے۔ اُس نے آسٹریلیامیں ایک نئی فوجی چوکی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں ایٹمی توانائی سے چلنے والی جدید ترین آبدوزیں رکھی جائیں گی اوراس ملک کو ہر طرح کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔آسٹریلیا کے مشرق میں بحرالکاہل واقع ہے اور مغرب میں بحر ہند۔ نئی چوکی بنانے کا مقصد یہ ہے کہ چین اِن سمندروں سے گزرنے والی اپنی کھربوں ڈالر کی تجارت کوبلا تعطل رواں دواں رکھنے کیلیے امریکہ کا محتاج رہے۔ دنیا کے اس اہم ترین بحری راستے پر اَنکل سام کا آہنی کنٹرول ہو۔جیسے مشرق ِوسطیٰ میں اسرائیل امریکہ کی چوکی ہے اسی طرح بحر ہند اور بحرالکاہل میں آسٹریلیا کا مقام ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ۔ پندرہ ستمبر کوامریکہ ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا نے نئے سہ ملکی فوجی اتحاد ’آکس‘ کا اعلان کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں ممالک میں نسلی‘ لسانی اشتراک ہے۔تینوں انگریزی بولنے والی آبادی پر مشتمل ہیں اورسب کی بنیاد اینگلو سیکسن نسل پر ہے۔ آکس دوسری جنگ عظیم کے بعد بنائے جانے والا اہم ترین فوجی اتحاد ہے۔ آکس معاہدہ نے بحر ہند اور بحر الکاہل میں چین اور امریکہ کے بیچ ایک لکیر کھینچ دی ہے۔امریکہ نے اس خطّہ میں ایک نئی پالیسی اور حکمت عملی پر باقاعدہ عمل شروع کردیا ہے۔امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کیلیے صف بندی ہوگئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی اس فوجی اتحاد کے قیام کیلیے کام شروع کردیا تھا۔ تاہم انہوں نے اسے حتمی شکل دے کر اسکا باقاعدہ اعلان ایسے وقت کیا ہے جب انہیں افغانستان سے فوجوں کے انخلا کے معاملہ پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ امریکہ کیلئے افغانستان سے زیادہ بحر ہند اور بحرالکاہل کا خطہ اہمیت کا حامل ہے۔اب ناقدین کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کی اتنی عجلت کیوں تھی۔ انکل سام اپنی توانائیاں اوردولت افغانستان کی بجائے چین کے خلاف صرف کرنا چاہتا ہے۔ چین کے خلاف صف بندی کرنے پر امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ آکس معاہدہ کو بھی دونوں جماعتوں کی تائید حاصل ہے۔ چند روز بعد امریکہ میں اسی خطہ سے تعلق رکھنے والے چار ملکوں کی تنظیم ‘کواڈ‘ کا سربراہی اجلاس بھی منعقد کیا جارہا ہے جس میں شرکت کیلیے رُکن ملک انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی بھی واشنگٹن جارہے ہیں۔ جاپان‘ آسٹریلیا اور امریکہ اسکے تین دیگر ارکان ہیں۔ امریکہ اتنی طاقت کا حامل نہیں رہا کہ تنِ تنہا چین کا مقابلہ کرسکے۔ وہ اِسکے مقابلہ کیلیے اتحادی بنا رہا ہے جیسے روس کے خلاف بحر اوقیانوس کے خطہ میں اس نے یورپ کے ملکوں کو ساتھ ملا کر نیٹو کا فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا۔ آکس اور کواڈ نامی اتحادی تنظیموں کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بحر الکاہل میں واقع دیگر ملکوں بشمول جنوبی کوریا‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن اور ویت نام سے بھی قریبی تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں تاکہ چین کی بڑھتی طاقت کے سامنے بند باندھا جاسکے۔چین کیلیے یہ مشکل ہوجائے کہ وہ اپنے باغی ٹکڑے تائیوان پر بزور طاقت قبضہ کرسکے۔جاپان نے چین کے غیر آباد’ سینکاکوجزائر‘ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ وہ انہیں چین کے حوالے نہیںکرنا چاہتا ۔ امریکہ بار بار جاپان کو یقین دہانی کرا چکا ہے کہ وہ ان جزائر پر جاپان کا کنٹرول قائم رکھنے کیلیے اسکی حمایت اور مدد کرے گا۔ آکس معاہدہ کی ایک اہم شق یہ ہے کہ امریکہ ایٹمی توانائی سے چلنے والی آبدوزیں (سب میرین) تیار کرنے کی ٹیکنالوجی آسٹریلیا کو منتقل کرے گا اورآٹھ سے دس آبدوزیں تیار کرنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔ اس قسم کی ٹیکنالوجی امریکہ نے پچاس برس پہلے صرف برطانیہ کو فراہم کی تھی۔ایٹمی توانائی سے چلنے والی آبدوزیں ابھی تک صرف چھ ملکوں کے پاس ہیں جن میں امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس‘ چین اور انڈیا شامل ہیں۔ آسٹریلیاانہیں حاصل کرنیوالا ساتوں ملک ہوگا۔ یہ آبدوزیں ڈیزل کی بجائے ایٹمی توانائی سے چلتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان پر ایٹمی ہتھیار بھی نصب ہوں۔ تاہم یہ روایتی آبدوزوں سے زیادہ کارگر ہوتی ہیں کیونکہ ان میںزیادہ گولہ بارود‘ میزائیل لادے جاسکتے ہیں ۔ ان کی مدد سے میزائیل زیادہ فاصلہ تک مارکرسکتے ہیں۔ ایٹمی آبدوزیں زیادہ عرصہ تک پانی کے نیچے رہ سکتی ہیں اور انہیںڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں انکی مستقل موجودگی سے خطہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہو جائے گا کیونکہ چین کے پاس ایسے میزائیل تو ہیں جو روایتی آبدوزوں کو نشانہ بناسکیںلیکن ایٹمی آبدوزوں کو ہدف بنانے کیلیے نئے قسم کے ہتھیار وں کی ضرورت ہوگی۔ چین نے اس فوجی اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹھیک کہا ہے کہ اب خطہ میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ شائد یہی جنگی صنعت کا کاروبار کرنے والوں کا مقصد بھی ہے۔چونکہ ان آبدوزوں کو تیار کرنے میںدس سے بیس سال درکار ہوں گے اس لیے چین بھی اس عرصہ میں کوئی توڑ نکالے گا۔ اسے بھی اپنے مالی وسائل معاشی ترقی کی بجائے جنگی صنعت میں جھونکنا پڑیں گے۔ آکس معاہدہ کے تحت امریکہ اور برطانیہ آپس میںمصنوعی ذہانت‘ سائیبر ٹیکنالوجی‘ کوانٹم ٹیکنالوجی سمیت متعدد جدید سائنسی ایجادات کا تبادلہ کریں گے۔ انٹیلی جنس معلومات کا اشتراک تو ان ملکوں میں پہلے سے موجود ہے لیکن اسے مزید بڑھایا جائے گا۔ صدر بائیڈن نے اس سال جون میں سات بڑے صنعتی ملکوں کی تنظیم جی سیون کے سربراہی اجلاس میں تجویز پیش کی تھی کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے مقابلہ میں یہ ممالک متبادل سرمایہ کاری کاایک منصوبہ پیش کریں لیکن اس نکتہ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا۔ یورپی ممالک کے چین سے گہرے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ وہ امریکہ کے ساتھ کھل کر چین مخالف اتحاد بنانے سے گریزاں ہیں۔آکس اتحاد بننے سے انڈیا کے امریکہ کے سامنے نخرے بھی ڈھیلے پڑ جائیں گے کیونکہ انکل سام نے واضح کردیا ہے کہ خطہ میں اسکے پاس ایک سے زیادہ اتحا دی موجود ہیں۔