کہتے ہیں برابری یا’ عورت برادری‘ کے حقوق کی حامی ایک خاتون نیچر یا کنٹری سائیڈ کو قریب سے دیکھنے کے شوق میں کسی گاؤں میں پہنچی تو کیا دیکھا کہ ایک کسان نے ایک کرخت سینگوں والے بَیل کے ساتھ ساتھ ایک نازک اندام اور ددھیل گائے کو بھی ہلوں پہ جوتا ہوا ہے۔خاتونِ مذکور نے تقریباً احتجاج کے انداز میں اپنے شوہرِ نامدار سے کہا: سارے گاؤں کی باقی گائیں اپنے اپنے تھان پہ مزے سے کھا پی رہی ہیں، پھر اس بے چاری گائے کے ساتھ ایسا امتیازی اور ظالمانہ سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ شوہر نے بڑے رسان سے جواب دیا: ’’ یہ بھی تمھاری طرح برابر کے حقوق کی حامی ہے۔‘‘ کچھ دنوں سے ٹی وی پہ خلیل/ ماروی جھڑپ کی بڑی دھوم ہے۔ہمیں حیرت ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کا دھیان اس طرف نہیں گیا کہ دونوں ڈرامے کے آدمی ہیں اور دونوں نے یہ ڈراما اس مہارت اورفن سے کھیلا ہے کہ کسی کو کانوں کان احساس نہیں ہونے دیا۔ ایک زمانے میں امجد اسلام امجد اور حسینہ معین کے ڈراموں کی سب سے بڑھ کر تعریف یہ کی جاتی تھی کہ ان کے ڈراموں کے نشر ہونے کے وقت سڑکوں پر ٹریفک بند ہو جاتی تھی۔اب اس ڈرامے کے بعد ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیے کہ کیا کیا بند ہوا پڑا ہے؟ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر سیاست بند… گلیوں بازاروں سے اپوزیشن کی پھیلائی ہوئی مہنگائی بند… بدلتے موسم کی گرمی سردی بند … عمرے میں تاخیر بند … حج پہ جانے والوں کا تذکرہ بند…جگہ جگہ منعقد ہونے والے بورڈ کے امتحانات کی کوریج بند … افغان امریکا مذاکرات بند … حکومت اپوزیشن کی جنگ بند … کشمیر میں ہونے والے مظالم بند … دلی میں کی جانے والی بھارتی حکومت کی درندگی بند …عدالتوں سے دھڑا دھڑ ہونے والی مجرموں کی ضمانتیں بند… فیاض چوہان اور فردوس اعوان کے کرارے بیانات بند … بلاول کی بونگیاں بند … شیخ رشید کی مسخریاں بند… نواز شریف کا علاج بند … لا علاج شہباز شریف کی تضاد بیانی بند …افسروں کے تبادلے بند … ق لیگ کی سازشیں بند… بجلی چوروں کی مذمت بند … آٹے پیاز کی عدم دستیابی بند …ٹورازم کی تشہیر بند … مشاہد اللہ کی بدبودار تقریر بند… کسی کی زبان بند … کسی کی دکان بند… حتّیٰ کہ کرونا وائرس کی دہشت بند … اس کے مزے مزے کے علاج بتانے والوں کے کاروبار بند… اب جدھر بھی دیکھو خلیل الرحمن کی یلغار اور ماروی سرمد کی زبان کی تلوار چل رہی ہے… ٹاک شوز کی ریٹنگ چل رہی ہے …گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں …مذہب اور فیمینزم کا دھندہ چل رہا ہے … اسے کہتے ہیں ڈرامے کی کامیابی… لسان العصر اکبر الہٰ آبادی نے آج سے سو سال قبل کہا تھا: بوٹ ڈاسن نے بنایا ، مَیں نے اک مضموں لکھا شہر میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا عکس و آہنگ کے سیانے کہتے ہیں کہ فلم، ڈرامے کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ کاسٹ کم ہواور شہرت و آمدن بے حساب۔ آپ ذرا اس ڈرامے کی کاسٹ کو دونوں حوالوں سے دیکھ لیں کہ نامعلوم پروڈیوسر اور ہدایت کار کو صرف دو عدد اداکار کاسٹ کرنے پڑے ہیں، لفافے بھی دو ہی تیار ہوئے ہیں لیکن سکرپٹ اتنا مضبوط، موقع اتنا مناسب اور اداکاری اتنی میچوئر ہے کہ تھوڑی سی ہینگ پھٹکڑی لگنے سے رنگ اتنا چوکھا آ گیا ہے کہ ہر ہر زبان، ہر ہر گھرانے، ہر ہر محفل، ہر ہر چوراہے، ہر ہر اخبار، ہر ہر چینل، ہر ہر ویب سائٹ سے ڈُل ڈُل پڑ رہا ہے۔ ورنہ دوستو! آپ جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے اعتبار سے ’’ میرا جسم، میری مرضی… اپنا کھانا خود گرم کرو اور ’’ اپنے موزے خود تلاش کرو‘‘ وغیرہ جیسے بیانیے اتنے بودے ہیں کہ گزشتہ سال ہی اپنی موت آپ مر چکے تھے۔ اس سال تو عدالت نے بھی مداخلت کی تھی۔ سب دیکھ رہے تھے کہ قریب قریب ہر شریف اور معقول گھرانے سے اس بیانیے پہ نفرین بھیجی جا رہی تھی۔ ان کو بھی یہ احساس ہو چلا تھا کہ اس مارکیٹ میں یہ منجن اب زیادہ دیر نہیں بیچا جا سکتا۔ اب گھسے پٹے اور کسی نیچ سوسائٹی یا محلے سے درآمد کردہ اس بے شرم بیانیے میں ہمدردی، مظلومیت یا استحصال کا کوئی نیا رنگ بھرنا ضروری تھا، جو ہماری این جی اوز کے بے باک کرداروں،ہمار ے ٹاک شوز کے مہان فن کاروں اور لمحہ موجود میں ڈرامے کے ان منجھے ہوئے ادا کاروں نے پانچ منٹ کی فلم چلا کے نہایت کامیابی سے بھرا ہے۔ سچ پوچھیں انسانی زندگی میں صنفِ نازک کی اہمیت کے حوالے سے ہمیں تو آج بھی مکمل طور پر شاعرِ مشرق کی ’ضربِ کلیم‘ میں شامل نظم ’عورت‘ کے ساتھ مکمل اتفاق ہے، یہ الگ بات کہ ہماری نالائقی کی بنا پر پہلے مصرعے کے علاوہ اس اہم ترین نظم کا کوئی اور مصرع آج تک زبان کی لذت اور مفہوم کی ندرت کے باوجود دھیان کی سیڑھیاں چڑھ کے ہمارے حافظے میں ترازو نہیں ہو سکا۔ شاعرِ مشرق فرماتے ہیں: وجودِ زن سے تصویرِ کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں شرف میں بڑھ کے ثریا سے مُشتِ خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوں پھر اس امر میں بھی کوئی شائبہ نہیں ہو سکتا کہ عورت کے جو مناسب ترین حقوق اسلام نے مقرر کر دیے ہیں، ان میں قیامت تک ترمیم و تبدل کی رتی بھر گنجائش نہیں۔ اس وقت عورت کے حوالے سے ضرورت تو اس امر کی تھی کہ ونی، کاروکاری، جہیز کی مذمت، بچیوں کی جلد شادیوں، بیٹیوں کے جائیداد میں حصے، لڑکیوں کی مناسب تعلیم اور معقول تربیت کی بات کی جاتی لیکن ان کی ڈھائی تین درجن عورتوں نے لوگوں کو اور ہی ڈرامے بازیوں میں الجھا دیا۔ اپنے نثار اکبر آبادی مرحوم نے تو شاید ایسے ہی خدشات کے پیشِ نظر ِ ا س لبرل، حقوق فیم اور فسادی طبقے سے بھلے وقتوں میں یہ کہہ جان چھڑا لی تھی: لیلیٰ کی بیٹیوں سے نمٹنا محال تھا اچھا ہوا جو قیس کنوارے چلے گئے