داخلی سطح پر اتحاد ویکجہتی کی جس قدر ضرورت آج ہے اس کا اندازہ ان حقائق کے سرسری جائزے سے کیا جاسکتاہے۔خطے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔بھارتی فوج کے سربراہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وزیر خارجہ جے شنکر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کو واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے حالات جوںکے توں ہیں بلکہ شہریوں پر تشدد کے واقعات میںاضافہ ہوچکا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں نے منی لانڈرنگ اور دہشت گرد گروہوں کو وسائل فراہم کرنے کے راستے بند نہ کرسکنے کے الزام میں پاکستان کے گرد مالیاتی شکنجہ کسنے کا پورا بندوبست کیا ہوا ہے۔ افغانستان میں جاری امن عمل کو نظر لگ گئی اور وہ سست روی کا شکار ہوگیا۔ طالبان کی افغان حکومت کے ساتھ مفاہمت بھارت کو گورا نہیں۔ صرف یہ ہی نہیں اجیٹ ڈول کی حکمت عملی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ تصادم کو مقبوضہ کشمیر سے نکال کر پاکستان میں منتقل کردیاجائے۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا تقاضہ تھا کہ سیاسی لیڈرشپ متحدہوتی اور سیاست کو بالاطاق رکھتی۔ ہوا مگر اس کے برعکس۔ مولانا فضل الرحمان لنگوٹ کس کر میدان میں اترے۔ خاموشی کے ساتھ مگر ہر سطح پر انہیں باورکرایاگیا۔ عسکری لیڈرشپ نے بھی ان سے درخواست کی وہ احتجاج کچھ عرصے کے لیے ملتوی کردیں۔مولانا ڈٹے رہے۔ ستائیس اکتوبر کشمیر کی تاریخ میں بہت اہمیت کا حامل دن ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اسی دن اتاری گئی ۔ گزشتہ کئی عشروں سے اس دن یوم سیاہ منایاجاتاہے۔ گزشتہ دوڈھائی ماہ میں کشمیر کے جو دگرگوں حالات رہے ان کے پس منظر میں زیادہ جوش وخروش کے ساتھ یوم سیاہ کی تیاریاں جاری تھیں۔ عالمی سطح پر بھی کافی توجہ مل رہی تھی۔ امریکی کانگریس کی انسانی حقوق کی سب کمیٹی میں گزشتہ ہفتے کے اجلاس میں اگرچہ امریکی حکومت کے نمائندوں کا موقف بہت جاندار نہ تھا لیکن ارکان کانگریس نے بھارتی حکومت کے طرزعمل کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تین ماہرین کو مدعو کیا گیا کہ وہ کشمیر پر ماہر مانے جاتے ہیں۔ تینوں ہندو تھے اور ان میں سے دو نے بھارتی حکومت کے ناجائز ہتھکنڈوں کے ایسے پرخچے اڑائے کہ سننے والے نمناک ہوگئے۔ ایک خاتون صحافی نے بھارتی اقدامات کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی تو ایک رکن کانگریس کے تیکھے سوالات نے اس کے ہوش ٹھکانے لگادیئے۔ بچاری کو کیا معلوم کہ دنیا اندھی نہیں ۔ آج مولانا فضل الرحمان آزادی مارچ شروع چکے ہیں۔ آج ہی کے دن لندن اور نیویارک میں کشمیر پر عظیم الشان مظاہرے اور احتجاج بھی ہورہے ہیں۔نہیں جناب! کئی ایک ممالک میں مغربی دنیا کے سکالر اور سول سوسائٹی کے سرگرم علمبردار اس دن کو ایک دوسرے رنگ میں منا رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا نام رکھا ہے : مزاحمت کا عالمی دنـ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا نے ساری توجہ ’’آزادی مارچ‘‘ پر مرکوز کرلی ۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اس کی کوریج کررہاہے مقبوضہ کشمیر کا لاک ڈاؤن اور حالات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔پاکستان کی حکومت اور اداروں کی ساری توجہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے آزادی مارچ یا دھرنے کو سنبھالنے پر لگی ہے۔ حکومت پاکستان اور اس کے ادارے جس یکسوئی کے ساتھ کشمیر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے وہ تحلیل ہوگئی ہے۔ میڈیا داخلی سیاست کو اچھالنے کا شیدائی ہے۔ ہنگامہ ہویا کوئی بحران اس کی چاندی ہوجاتی ہے۔میڈیا کی سکرین پر رہتاہے تو پاکستان کی گلیوں محلوں میں بھی کشمیر زیر بحث آتاہے ۔ پاکستان میں کشمیر پس منظر میںچلاجائے ۔ترجیحات بدل جائیں تو عالمی برادری کی دلچسپی بھی دم توڑ جاتی ہے۔ اجیت ڈول کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ تصادم کا مرکز ومحور بدل گیا۔ مولانا نے شعوری یا لاشعوری طور پر ایسے مرحلے پر آزادی مارچ شرو ع کیا جس نے بھارت کی مد د کی۔ پانچ اگست کے بعد پاکستان کی داخلی اور خارجی سیاست میںجوہری تبدیلی آچکی ہے۔ مولانا جیسے جہاندیدہ سیاستدان کو کیوں اس کا ادراک نہ ہوسکا؟ فضل الرحمان اور ان کی جماعت کافکری اور سیاسی منبع آج بھی دارلعلوم دیوبند اور جمعیت علماء ہند ہی ہے۔جمعیت علما ء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی قیادت میں ایک وفد نے حال ہی میںبھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی۔ بھارتی مسلمان ہر طرح کی علیحدگی پسندی کے خلاف ہیں۔ قبل ازیں جمعیت علمائے ہند نے حال ہی میں ایک قرارداد بھی پاس کی کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور کشمیری ہمارے ہم وطن ہیں۔ کوئی بھی علیحدگی پسند تحریک نہ صرف ملک کے لئے بلکہ کشمیریوں کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ جمعیت علماء ہند کی سینئر لیڈرشپ نے جنیوا میں انسانی حقوق کونسل میں جاکر کشمیر کے خلاف لابنگ کی۔ اوآئی سی کے ممالک کو بھی بتایاکہ کشمیر یوں کی حمایت ترک کریں۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ان ہندی مسلمانوں نے کشمیریوں کی تحریک کو علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی عالمی تحریکیوں کے ساتھ مربوط کرکے پیش کیا اور عالم عرب کو اس سے خوفزادہ کیا۔ وہ نریندرا مودی اور عربوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علماء ہند بھارتی حکومت کا ہمیشہ ہر اوّل دستہ رہی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اس نے نہ صرف ہاتھ ملایا ہے بلکہ دونوں مشترکہ طور پر کشمیریوں اور پاکستان کے مفادات پر کڑی ضرب لگارہے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں مولانا فضل الرحمان کی بھی انہوں نے اجیت ڈول سے ملاقات کرائی۔مولانا کی ڈول کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ پانچ اگست کو جو ہوا۔ اس نے پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا جوسلسلہ شروع کیا تھا وہ تھمنے والا نہیں۔ بی جے پی کی موجودہ حکومت ایک نظریاتی حکومت ہے۔ اس کی لگام آرایس آیس کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ اپنے ایجنڈے پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ دفعہ370انہوں نے ختم کردیا۔ کشمیری مسلمانوں کی ریاست کے اندر سیاسی اور عدی بالادستی کی روایت بھی اب ختم کرنے کو ہیں۔ اجودھیا میں رام مندر کا خواب بھی پورا ہونے کو ہے۔ بالاکوٹ پر انہوں نے حملہ کرکے عالمی سرحد کی خلاف ورزی کی۔ ایٹمی جنگ کے خطرہ کو وہ پاکستان کا پھیلایا ہوا فریب یا دھوکہ قراردے کر مسترد کرتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر جنگ کا سماں پیدا کیاجاچکا ہے۔ پچاس سے زائد شہری جاں بحق ہوچکے۔ تین لاکھ سے اوپر آبادی محاصرے میں ہے۔ بھارت کسی بھی وقت کسی بھی بہانے سے آزادکشمیر پر حملہ کرسکتاہے ۔ خاص طور پر نومبر میں حملوں میں مزید شدت کا امکان ہے جو بڑی جنگ میں بدل سکتے ہیں۔ ایک طرف بھارت کا جادو سرچڑھ رہاہے تو دوسری طرف مولانا کی یلغارہے۔ حکومت اور ادارے کس کس کا مقابلہ کریں۔