اگر آپ کو اس بات کا اندازہ کرنے میں مہارت ہے کہ کون سی جماعت اپنی قیادت کی کن خامیوں کو چھپاتی ہے تو آپ یہ بھی بتا سکیں گے کہ وہ آئین کی کس شق کا دفاع کرتے ہوئے جمہوریت اور عوام کا نام استعمال کریں گے۔ اسمبلی کو تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار 58ٹو بی کی شکل میں آئین کا حصہ رہا۔ پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر آئین کے آرٹیکل 62اور 63کی پابندی کی بات کریں تو تمام جماعتیں مخالفت کریں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک آئینی شرط کو سب اپنی نااہلی چھپانے کے لئے فعال نہیں ہونے دیتے۔ صادق و امین کی بات کریں تو طنز شروع ہو جاتا ہے۔ آئین کا مطلب سماج کی ان آزادیوں کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر تحفظ ہے جو قدیم ثقافتی روایات ‘ عقائد اور نظریاتی قوتوں کے درمیان طے پاتی ہیں۔ سیکولر یا مذہبی ہونے کی بحث کم سطح کے لوگ کرتے ہیں۔ معاملے کو حل کرنے کے لئے سماج کی اکثریتی سوچ اقلیتی فکر کا احترام کرتی ہو تو معاشرہ مذہبی کہلاتا ہے۔ انتہا پسندی اکثریتی آبادی کی پسند اور عقیدے کی حدود سے باہر نہیں نکلتی۔ پاکستان کا سماج سیاسی رہنمائوں سے محروم ہے۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کی ضد میں طاقت پکڑتے ہیں۔ کچھ کے ہاتھ سے طاقت چین کے ریشم کی طرح سرک جاتی ہے اور کچھ طاقت کے غلام بن جاتے ہیں۔ جن کے ہاتھ طاقت کو پکڑ نہیں پاتے وہ کارکن کہلانے لگتے ہیں جو پٹواری اورتھانیدار سے بنانا سیکھ جاتے ہیں وہ درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہوئے ڈی سی اور ایس ایس پی تک جا پہنچتے ہیں۔ تعلق مسلسل آبیاری چاہتا ہے۔ غرض کا تعلق پانی کی طرح پیسے کے بہائو کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ ہمارے سیاستدان نظام میں نقب لگانے کو سیاست سمجھتے ہیں۔ ان کی تربیت کرنے والے عشروں سے یہی سکھا رہے ہیں۔ سیاسی خاندانوں کی تیسری اور چوتھی نسل بھی سیاست دان نہیں اس لئے وہ کچھ روایات کو آئین سمجھ رہی ہے‘ جیسے گرفتار اراکین کے لئے سپیکر کے پروڈکشن آرڈرز۔ یہ پروڈکشن آرڈر کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ 2007ء کے رولز آف پروسیجر اور کنڈکٹ آف بزنس نیشنل اسمبلی کے رول 108کے تحت سپیکر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس نوع کے فیصلے کر سکے۔بھارت میں لالو پرشاد یادیو کے خلاف چارہ سکینڈل آیا۔ ادارے ثبوت اکٹھا کرتے رہے۔ تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا‘ مقدمہ پک گیا تو لالو کو پکڑ لیا۔ اس پکڑے جانے اور فیصلہ ہونے کے درمیان والی مدت میں اسمبلی کا اجلاس ہوا مگر سپیکر سے کسی نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا کہا نہ یہ نادر حق بزنس رولز میں شامل کرنے کا خیال کسی کو آیا۔ برطانیہ اورامریکہ کی پارلیمان میں تو خیر اس بات کی گنجائش ہی نہیں کہ کسی رکن پارلیمنٹ پر مالیاتی بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام آئے اور وہ اگلے روزاسمبلی میں چلا آئے۔ جولوگ کہتے ہیں ہم نے پاکستان میں جمہوریت کے لئے قربانیاں دیں وہ ذرا یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ ان کی قربانیوں نے جمہوریت کو کتنا خالص کیا۔ ان قربانیوں نے خاندانی اقتدارکوپروان چڑھانے کے سوا کوئی خدمت کی ہو تو بتائیے۔ آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ ایوان کو چلانے کے ضابطوں میں سپیکر کے اختیارات کو مرکزیت حاصل ہے۔ سپیکر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کسی رکن کو گرفتار کیا جائے اور مقدمے کا فیصلہ ابھی نہ آیا ہو تو اس دوران اسمبلی کے اجلاسوں میں حلقے کے ووٹرز کی نمائندگی یقینی بنانے کے لئے وہ گرفتار رکن کے پروڈکشن آرڈر جاری کر سکتا ہے۔ دنیا کی تین بڑی جمہوریتوں میں جو ہوتا ہے اس کی مثال تو پیش کر چکے ہیں‘ اب یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کیا منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس سے ملک کی معاشی سکیورٹی کو خطرے میں نہیں ڈالا گیا۔ کیا مختلف تجارتی معاہدوں میں پاکستان کے مفادات کو دائو پر نہیں لگایا گیا۔ کیا نامعلوم ذرائع آمدن سے بیرون ملک اثاثے نہیں بنائے گئے اور یہ اثاثے چھپائے نہیں گئے؟ سپیکر کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار ابتدا میں سیاسی انتقام کو لگام دینے کی نیت سے بزنس رولز میں شامل کیا گیا۔ نوے کی دہائی ایک دوسرے کے سیاسی نظریات کو ملک دشمنی قرار دینے کا زمانہ تھی۔ سیاست دان سدھرے تو خیر اب بھی نہیں‘ بہرحال اس وقت سیاسی قوتوں کے مابین تصادم نے ہمیں وسط ایشیا کی نئی مارکیٹ تک جانے کے قابل نہ رہنے دیا۔ اس تصادم نے پاکستانی معیشت کو ترقی کے بہترین مواقع سے محروم کر دیا۔ ہم سازگار بین الاقوامی حالات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ تب سپیکر یوسف رضا گیلانی نے مسلم لیگ ن کے بعض اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے سپیکر کا خیال تھا کہ مقدمات کی نوعیت سیاسی ہے۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اس پر کچھ خفا بھی ہوئیں ن لیگی سپیکر گوہر ایوب نے جب پیپلز پارٹی کے اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا سوچا تو میاں نواز شریف نے شدید ناراضی ظاہر کی۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں پانچ پانچ برس تک رہی ہیں۔ دونوں نے طے کر رکھا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف مالی بدعنوانی کے مقدمات نہیں بنانے۔ میاں نواز شریف جب کالا کوٹ پہن کر یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے تو ان کی درخواست میں میمو گیٹ سے متعلق الزامات تھے۔ مالی بدعنوانی‘ نندی پور منصوبے میں تاخیر‘ حج سکینڈل یا رینٹل منصوبے کی بنیاد پر عدالت سے رجوع نہیں کیا گیا تھا۔ دس سال میں پبلک اکائونٹس کمیٹی سے افسران کی سرزنش کی سرخیاں برآمد ہوتی رہیں یا اراکین کبھی کبھار ایک دوسرے سے تلخ کلامی کا تجربہ کر لیتے۔ جمہوریت عوام کو جوابدہ نظام ہے ہماری جمہوریت کتنی جوابدہ ہے؟ عوام ہماری اسمبلیوں اور سینٹ میں بیٹھ نہیں سکتے۔ یہ خواص کی جمہوریت ‘ خواص کی پارلیمنٹ‘ خواص کی حکومت اور خواص کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ادارے ہیں۔ عام آدمی معمولی الزام میں پکڑا جاتا ہے اور تشدد سے تھانے میں مر جاتا ہے۔ خاص آدمی کو بچانے کے لئے پورا نظام زور لگا دیتا ہے اور سپیکر کے پروڈکشن آرڈرز کو جمہوری بالادستی کی سب سے بڑی دستاویز کا درجہ دیدیا جاتا ہے۔ سردست ایک نئی صورت حال ملاحظہ فرمائیں! پارلیمنٹ میں ناکام ہونے کے بعد خواص نے وکلا کو میدان میں اتاردیا ہے۔ جنگ کسی کی ہے نعرے کسی اور کے لگ رہے ہیں۔