قاتلوں کو مہلت دی جا سکتی ہے‘ حتیٰ کہ کبھی معاف بھی کیا جا سکتا ہے مگر ان کی ناز برداری؟ سوشل میڈیا کے کیچڑ میں کہیں کہیں کوئی ہیرا بھی جگمگاتا ہے۔مثلاً مرزا ندیم الحق کی تحریریں۔ سحر پہلی خبر سے ایک زخم ہرا ہوا تھا، مرزا صاحب کی تحریر پر شاعر یاد آیا: تم سے پہلے تو بہاروں کا یہ انداز نہ تھا پھول یوں کھلتے ہیں ‘ جلتا ہو گلستاںجیسے انہوں نے لکھا ہے: خالد بن ولیدؓ کے انتقال کی خبر مدینہ پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ آدمی تو روئے ہی، آپ ؓکا گھوڑا ’’اشجر ‘‘بھی رویا۔روم اور ایران کی سلطنتیں جس کے سموں تلے روند دی گئیں تھیں۔بستر مرگ پر فرمایا: جسم کا کوئی حصہ نہیں جس پر تلواروں او رنیزوں کے زخم نہ ہوں لیکن شہادت نصیب نہ ہو سکی۔ رسولِ اکرمؐ نے آپ ؓکو ’’سیف اللہ‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ اللہ کی تلوار میدانِ جنگ میں کیسے ٹوٹتی۔ غالباًیہ حلب کا واقعہ ہے۔ شہر پناہ کے دروازے کھل چکے تو بڑے پادری نے کہا: اچھا ہوا، معاہدہ ہو گیا‘ ورنہ اپنے لیے زہر کی ایک پڑیا رکھ چھوڑی تھی۔ ابنِ ولید ؓ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور بیت گیا۔ پادری سے پوچھا: آدمی خواہ زہر ہی کھا لے، موت کیا وقت سے پہلے بھی آ سکتی ہے؟ پڑیا مانگی اور پھانک لی۔ مدتوں بعد تاریخ کے سب سے بڑے جنرل کا انتقال اسی زہر سے ہوا یہ نہیں کہ زہر سے موت واقع نہیں ہوتی۔ یقینا ہوتی ہے۔ قدرت کے قوانین اٹل ہیں لیکن تقدیر بنانے والا گاہے ان میں استثنا پیدا کرتاہے: یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی صرف خالد بن ولیدؓ ہی نہیں، طارق بن زیاداور محمد بن قاسم کے لیے، گاہے ان کے معنوی فرزندوں کے لیے بھی۔ جنگِ یرموک میں رومی فوج صرف تعداد میں زیادہ نہیں تھی بلکہ گھڑ سوار زیادہ، اسلحہ بھی زیادہ۔ سپہ سالار بھی جہاندیدہ کہ دنیا بھر میں اس کی دھاک تھی۔ ایک مسلمان کو سیف اللہ نے یہ کہتے سنا ’’رومی کتنے زیادہ ہیں‘‘۔ گھور کر دیکھا او رکہا ’’چپ رہ، میرے گھوڑے کے سم خراب نہ ہوتے تو خواہ اس سے دوگنی فوج لے آتے۔‘‘ تکبر نہیں، حوصلہ بڑھانے کا قرینہ تھا۔ سرکارؐکا فرمان یہ ہے کہ فخر جائز نہیں مگر میدانِ جنگ میں۔ اسی چار دن تک جاری رہنے والی جنگِ کا واقعہ ہے‘ ایک دن چند گھڑ سواروں کے ساتھ عالی جنابؓ ایک ٹوپی کی تلاش میں نکلے۔ رومیوں سے لڑتے لڑتے یہ اپنی ٹوپی اٹھا لائے۔ سپہ سالار نہیں۔وہ نائب سالار تھے۔ قیادت امین الامت عبیدہ بن ابی جراحؓ کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے تعجب کیا تو عرض کیا: رحمتہ اللعالمینؐ نے ایک بار بال ترشوائے تو مجھے بھی کچھ عنایت کیے تھے۔ میں نے ٹوپی میں سی لیے تھے۔ کیونکر یہ گوارا کرتا کہ رومی گھوڑوں کے سموں تلے روندے جائیں۔ رومی فوج کی پہلی صف بارہ میل پہ پھیلی تھی۔ ملکوں ملکوں کے بہادر، خاص طور پر آرمینیا کے وہ دستے، چہاردانگِ عالم میں جن کا چرچا تھا۔ ہیر الڈلیم کی اصطلاح مستعار لی جائے تو کہا جا سکتاہے کہ انسانوں کی نہیںیہ جنوں، بھوتوں کی لڑائی تھی۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ ہزاروں ہی زخمی۔ فتح کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے لشکر کو پیچھے ہٹنا پڑتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان خواتین کو تلواریں سونت کر میدان میں اترنا پڑا۔ چوتھے دن جن آٹھ ہزار گھڑسواروں کے ساتھ فتح نصیب ہوئی، ان میں چار ہزار پہلے سے زخمی تھے۔ رومی فرار ہو چکے تو جنگ کے تمام قواعد و قانون کو پسِ پشت ڈال کر اسی لشکر کے ساتھ خالدؓ دمشق کو لپکے۔ کیسی شجاعت، ہیبت اور فراست تھی کہ شہر والوں نے دروازے کھول دیے۔ مشاورت میں اس نتیجے پر وہ پہنچے کہ انہیں شہر سونپ دینے میں بھلائی ہے‘ جو کسی کی جان و مال اور آبرو کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ کہا جاتاہے کہ ایک مکمل سوانح عمری کبھی نہیں لکھی گئی۔۔ کم از کم جنابِ خالد بن ولیدؓجیسے کردار کے بارے میں تو یہ بات پوری طرح سچ ہے۔ تاریخی معلومات تو شاید مہیا ہو جائیں لیکن اس شخص کے تیور کون بیان کر سکتاہے۔پیغمبران عظام‘ ان کے ساتھیوں اور اولیا کرام پر بنائی جانے والی فلمیں سطحی اور احمقانہ ہوتی ہیں۔Ten Commandments میں جس شخص کو حضرت موسیٰ ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کا کردار سونپا گیا کیا ایک بھی منظر میں وہ، اس سے انصاف کر سکا؟ ایران کے پایہ تخت نہاوند کی فتح کے بعدمدینہ سے فلسطین پہنچنے کا فرمان خالد بن ولید کوپہنچا۔ ایسا عجیب فیصلہ آپؓ نے کیا کہ تاریخ اس کی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔ طویل و عریض صحرا سے گزر کر آپؓنے بلاد الشام پہنچنے کا ارادہ کیااور پورا کر ڈالا،جس میں پانی کی بوند بھی مہیا نہیں تھی۔ ہزاروں مسلمانوں کا لشکر اور پیاسا مرنے کا خطرہ؟ ’’ایک ایک مسلمان کی جان قیمتی تھی‘‘۔ یہ بات عمر بن خطابؓ کہا کرتے۔منزل مراد پر آپ شاداں پہنچے تیرہ سو برس کے بعد برطانوی فوج کے دستے اسی راستہ سے پہنچے۔پانی سے بھرے سینکڑوں ٹینکر۔ مگر وہ ہراساں تھے۔ قیادت امین الامت عبیدہ بن ابی جراح کو سونپی تھی کہ وہ کم از کم جانی نقصان کا خطرہ مول لیتے۔ جنگِ یرموک کا پہلا دن تھا۔ بعض کو گمان ہوا کہ خالدبن ولیدؓکی کارکردگی ایسی نہیں، جیسی کہ ہونی چاہئیے۔ ابو عبیدہؓ نے انہیں طلب کیا۔ مودبانہ ان کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے۔ وہ انہیں خود سے برتر وبلند سمجھتے تھے۔ وہی نہیں، رسول اللہؐ کے اکثر ساتھی ۔ وفات کا وقت قریب آیا اور جانشین کی فکر لاحق ہوئی تو عمر فاروق اعظمؓ کہاکرتے: ’’ابوعبیدہ ؓ ہوتے تو میں انہیں جانشین کرتا‘‘۔ بیت المقدس میں معاہدہ طے پاچکا تو وہ ان کے حجرے میں تشریف لے گئے۔ اوریہ کہا: رسول اللہؐ کے بعد ہم سب تھوڑے تھوڑے بدل گئے، آپ نہیں بدلے۔ یہاںبس اتنا ہی سامان تھا، جتنا کہ سرکارؐ کے ہاں ہوا کرتا۔ ایک ڈھال، ایک تلوار، لکڑی کا ایک پیالہ، ایک بچھونا اور ضرورت کی چند دوسری اشیا۔ انسانی تاریخ کے عظیم ترین مغالطوںمیں سے ایک یہ ہے کہ سازو سامان سے راحت مل سکتی ہے۔ صدیوں بعد صلاح الدین ایوبی ؓمصر کے دارالحکومت فسطاط میں داخل ہوئے تو فاطمیوں کے تعمیر کر دہ محلات کی بجائے ایک عام سا مکان چنا۔مورخ کہتا ہے لائبریری البتہ تھام لی ۔نماز فجر سے کچھ دیر پہلے مسجد میں نظر آتے۔ نوافل ادا کرنے کے بعد جھاڑو بھی دے دیا کرتے۔ عمر بھر ایک دھیلا سرکاری خزانے سے لیانہیں۔ پھر پھلوں سے ہلکا پھلکا ناشتہ کرتے۔ دھوپ کی حدت پھیلنے سے پہلے پریڈ گراؤنڈ میں پہنچ جاتے۔ افغانستا ن میں ہمارے مسلمان بھائی آباد ہیں۔ زیادہ نہیں تو کم از کم ایک چوتھائی کا پیٹ پاکستانی گندم اور پاکستان کوزخم لگانے والی سمگلنگ سے بھرتاہے۔ یہ سب گوارا مگر کابل کے ان حکمرانوں کو کیوں گواراکیا جائے جو امریکی غلام ہیں۔ جو بھارت کے سانجھی ساتھی ہیں۔ کل ہی وزیرستان میں چار شہیدوں کی لاشیں اٹھائیں اور کل ہی بھارت افغانستان تجارت کے لیے طور خم کی سرحد کھول دی گئی۔ سنا یہ تھا کہ کاکول اکیڈمی میں تربیت کے ہنگام خالد بن ولیدؓسے لے کر ٹیپو سلطان ؓکی زندگیاں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ پھرکس کی خوشنودی کے لیے بھارت اور اس کے حلیفوں کی نازبرداری ہے۔قاتلوں کو مہلت دی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ کبھی معاف بھی کیا جا سکتا ہے مگر ان کی ناز برداری؟