بھارت میں کسانوں کی تحریک سیلاب کی مانند امڈ آئی ہے۔ لاکھوں کسان دلی کے دروازے پر احتجاجی دستک دے رہے ہیں اورمودی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ ’’اصلاحات کے نام پر ان کے منہ سے نوالہ نہ چھینا جائے‘‘ وہ احتجاجی کسان رام راج کے نام پر ووٹ بٹور کر دلی میں بیٹھ جانے والے نیتاؤں کو بتانا چاہتے ہیں کہ کسانوں کے مسائل وہ نہیں سمجھ سکتے جنہوں نے کبھی ہل نہیں چلایا۔ جنہوں نے کبھی بیج نہیں بویا اور فصل نہیںکاٹا۔ وہ جو آشنا نہیں مٹی کی مہک سے ،وہ زراعت کے بارے میں کیاجانیں؟ اس وقت بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ پولیس اہلکار احتجاجی کسانوں پر آنسو گیس کے شیل فائر کر رہے ہیں اور اس طرح بھارت کے وہ پرانے نعرے قریب المرگ مریض کی طرح کھانس رہے ہیں، جن میں بھارتی اہلکاروں اور کسانوں کی ہمت بڑھانے کے لیے کہا جاتا تھا کہ ’’بھارت کے ہیں دو نشان؛ ایک جوان ایک کسان‘‘ آج بھارت کے جوان بھارتی کسانوں کے بڑھتے ہوئے قدم تشدد سے روک رہے ہیں اور اس بھارت کے لبرل اور شعور والے شہری سمجھ رہے ہیں کہ ان کا دیش اپنے آپ سے برسرپیکار ہے۔ نریندر مودی جس طرح ہندو قومپرستی کے ہاتھی پر سوار ہوکر چل رہا ہے اس کے پیروں تلے نہ صرف مسلمان بلکہ سکھ بھی کچلے جا رہے ہیں ۔ بھارت کے ادیب اور دانشور محسوس کر رہے ہیں کہ وہ بھارت بکھر رہا ہے جس کو گاندھی اور نہرو نے بڑی محنت سے جوڑا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت روز اول سے تضادات کا مجموعہ رہا ہے۔ اس لیے نہرو نے یہ کوشش کی کہ اس ٹوٹتے پھوٹتے ہوئے ملک کو سیکولرزم کی سیمنٹ سے جوڑا جائے۔ نہرو نے کوشش کی مگر نہرو کی موت کے بعد وہ کوشش دم توڑ گئی۔ نہرو کی بیٹی اندرا کے ہاتھوں میں کانگریس کی باگ تھی مگر اس کا دماغ اپنے والد جیسا نہیں تھا مگر پھر بھی وہ نہرو کی بیٹی تھی اور ایسی بیٹی جس کی تربیت نہرو نے خود کی تھی؛ اس لیے اس نے بھارتی سماج میں اپنی سیاست کو کچھ نہ کچھ چمکا کر رکھا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے ردعمل میں ہمدردی کا ووٹ کانگریس کو ملنا تھا اور وہ ووٹ من موہن تک چلتا آیا مگر اس وقت راہل گاندھی کانگریس کے نیتا تو ہیں مگر وہ مودی کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس لیے کانگریس مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ بھارت کے لبرل اور سیکولر سوچ رکھنے والے افراد کو اس بات کا افسوس بھی ہے کہ اب ان کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس بات کا افسوس بھارت کے احتجاجی کسانوں کے حصے میں بھی آ رہا ہے۔ اس وقت بھارت کی دو درجن جماعتیں کسانوں کی حمایت کر رہی ہیں؛ مگر کسانوں کی قیادت کو خوف ہے کہ کہیںان کی جدوجہد کو سیاسی جماعتیں کیش نہ کریں اور ان کے مطالبات صرف نعروں کی صورت گونجتے خاموش ہوجائیں۔ اس لیے کسانوں کی قیادت نے کانگریس سے لیکر عام آدمی پارٹی تک اپنے سارے حامیوں کا روایتی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی حمایت کے مشکور ہیں لیکن جب بھی وہ جماعتیں ان کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے آئیں تو وہ برائے کرم اپنی پارٹی کا پرچم اور پینا فلیکس اپنے ساتھ نہ لائیں۔ بھارتی کسانوں کو اب تک جس حمایت کی حقیقی خوشی حاصل ہوئی ہے وہ حمایت عام لوگوں کی ہے۔ بھارت میں ترقی پسند اور اصول پرست سیاست کی کمی کے باعث وہاں کے باشعور لوگ زیادہ تر انفرادی طور پر کی جانے والی سیاسی سرگرمی میں زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں۔ کسانوں کے مارچ میں بہت سارے مرد اور خواتین ایسی بھی ہیں جو خود کسان نہیں ہیں مگر وہ کسانوں کی عملی طور پر حمایت کرتے ہوئے ان کے ساتھ ٹہرے ہوئے ہیں وہ کسانوں کے والنٹیئر بنے ہوئے ہیں اور سارے دن کی سرگرمی کے بعد رات کو جب سوشل میڈیا پر احتجاجی کسانوں کی کہانیاں لکھتے ہیں تب ان کا اثر نہ صرف بھارت بلکہ بیرون بھارت تک ہو رہا ہے۔جب کسانوں کے دکھ درد انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں تب غیر بھارتی گورے بھی کسانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اس طرح مودی کی سیاسی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے۔ کسانوں کے حالات کا موازنہ کشمیریوں کے ساتھ کرنا بہت بڑی بے انصافی ہوگی؛ کیوں کہ پسینے کی عزت اور آبرو اپنی جگہ پر لیکن پسینے اور خون میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کسان پسینہ بہا رہے ہیں مگر کشمیری تو ستر برسوں سے خون کے نذرانہ دے رہے ہیں۔ کسانوں کی تحریک میں اب تک پانچ افراد لقمہ اجل ہوئے ہیں جب کہ کشمیری شہداء کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ بھارت کے انسان دوست افراد کو کبھی تو محسوس ہوگا کہ کشمیریوں کی قربانیوں کی حمایت نہ کرکے وہ جس منافقت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں؛ اس جرم کی سزا انہیں تاریخ کا منصف ضرور دے گا۔ پاکستان کے بہت سارے دانشور اور لکھاری اس وقت بھارتی کسانوں سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں اور انہیں کرنی بھی چاہئیے مگر کشمیریوں کی قربانیوں کو فراموش کرنا بہت بڑی زیادتی کے مترادف ہے۔ بھارت کے لبرلز کب اس طرح محسوس کریں گے جس طرح ارون دھتی رائے برسوں سے نہ صرف محسوس کر رہی ہے بلکہ وہ اس کا بھرپور اظہار بھی کرتی رہی ہے۔ بھارت کی عالمی شہرت یافتہ رائٹر ارون دھتی رائے کشمیر کے سلسلے میں اس احساس کا اساس ہے جو فلسطین کی جدوجہد آزادی میں وہاں کے عظیم دانشور ایڈروڈ سعید نے آخری دم تک اپنا کردار نبھایا۔ اس وقت بھارت کے انگریزی لکھنے والے ادیب اپنے معاشرے کے بہت معمولی مسائل پر ناول تحریر کر رہے ہیں۔ ارون دھتی رائے کی انفرادیت اس میں ہے کہ اس نے اپنے الفاظ سے نہ صرف مودی حکومت بلکہ بھارت کی منافق سیاست پر بھرپور وار کیے ہیں۔ بھارتی کسانوں کا جرم یہ نہیں کہ وہ کسان ہیں۔ بھارتی کسانوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان کی اکثریت سکھ مذہب سے وابستہ ہے۔ کاش! شعور کی دنیا میں بسنے والے انسانوں کو یہ نظر آئے وہ قاتل خنجر جو ہندو قومپرستی کے ہاتھ میں ہے۔ اس خنجر نے سب سے زیادہ خون مسلمانوں کا بہایا ہے۔ جب تک بھارتی ریاست کے ہاتھ میں تعصب کا وہ خنجر ہوگا تب تک بھارتی کسانوں کا پسینہ اور کشمیریوں کا خون بہتا رہے گا۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب لکھا ہے: ’’تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے خون بہتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے‘‘