یوں تو کسی معاملے میں ’’ماہر‘‘ ہونے کا درجہ رکھنا ایک معمول کی بات ہے، لیکن اسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان میں دَر آنے کے بعد افغان اُمور کا ماہر ہونا ایک ایسا نایاب فن بن گیا جس کی پوری مغربی دُنیا میں ایک دَم شدید مانگ پیدا ہو گئی۔ ایک تو افغانستان گزشتہ ایک صدی سے مغربی طاقتوں کیلئے ڈرائونا خواب رہا تھا اور دوسرا وہاں کیمونسٹ افواج کے حملے کی وجہ سے آزادانہ جانا ناممکن بن چکا تھا۔ رباط سے لے کر وا خان تک دو ہزار چھ سو ستر کلو میٹر طویل سرحد، جسے انگریز نے ڈیورنڈ لائن کا نام دے کر مضبوط مورچوں اور قدرتی حصاروں سے ایسے بنا رکھا تھا جیسے یہ پڑوسی افغانستان کوئی جناّت کی بستی ہو۔ سرحد کے اس طرف برطانوی ہندوستان میں آباد قبائل کو گورے نے مراعات دے کر انہیں اپنے ہی ہم نسل پشتونوں سے برتری کے زعم میں گرفتار کر دیا تھا۔ پشاور اور کوئٹہ میں آباد ان پشتونوں کے ماضی، انگریز سے وفاداری اور موجودہ معاشی و تعلیمی برتری انہیں ہمیشہ یہ فقرہ دہرانے پر مجبور کیا کرتی کہ اگر یہاں ’’انگریز نہ آتا تو ہماری حالت بھی افغانستان کے پشتونوں جیسی ہی رہتی‘‘۔ چمن شہر جس کا افغانوں سے صبح و شام کا واسطہ ہے وہاں کے لوگ بھی سردیوں سے پہلے اپنے گھر بار والوں کو یہ کہہ کر متنبہ کیا کرتے تھے کہ ’’قندھاریان را روان دی‘‘ (قندھاری آ رہے ہیں) یعنی اپنے آپ کو محفوظ کرو۔ قندھار کی جانب سے افغانی پشتون ہر سال سردیوں کے چند مہینے گزارنے آیا کرتے تھے۔ افغانستان ایک ایسا خطہ تھا جو دُنیا بھر کیلئے ایک افسانہ یا طلسم ہوشرباء سے کسی طور کم نہیں تھا۔ کابل کا جدید شہر ہی وہ مقام تھا جہاں تک دُنیا بھر کے لوگوں کی رسائی ممکن تھی۔ وہیں "Caravan" جیسی فلمیں بنتیں اور قصہ گو، افسانہ طراز، سیاح اور مؤرخ کہانیاں اور سفرنامے تحریر کیا کرتے۔ افغانستان کے اس مرتبان جیسے بند ماحول کے ساتھ ایک اور ظلم اس وقت ہوا جب اس کی زارِ روس کے ساتھ شمال مغربی سرحد جو تقریباً ڈیورنڈ لائن جتنی ہی طویل تھی اس کے پار قدیم روس میں 1917ء میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو وہ سرحد بھی ایک آہنی دیوار بن گئی۔ یوں افغانستان جو پہلے ہی جغرافیائی طور پر ایک کٹا ہوا علاقہ تو تھا ہی، اب باہر کی دُنیا والوں کیلئے ایک خواب و خیال بن کر رہ گیا۔ پاکستان بنا تو سرحدی علاقوں میں کانگریس کے حمایتی غفار خان کی سرخپوش حکومت کی وجہ سے افغانستان کو پاکستان کیلئے نہ صرف اجنبی بلکہ دُشمن صورت بنا دیا۔ دُنیا بھر سے کٹے ہوئے اس ملک کے جنوب میں ایک ایران واقع تھا جس سے اس کے تہذیبی رشتے اور مشترک تاریخ بھی تھی، مگر وہاں امریکی تھانیدار شاہِ ایران کی موجودگی اور افغان حکومت کے سوویت یونین سے گرم جوش تعلقات نے اس سرحد کو بھی ناقابلِ عبور کر دیا تھا۔ یوں گزشتہ صدی کے دوران افغانستان کی یہ سرزمین دُنیا بھر کیلئے ایک طلسم زدہ، حیرت کدہ اور ناقابلِ یقین حد تک اجنبی اور نامانوس ہی ٹھہری۔ 1979ء میں سوویت یونین نے اپنی افواج افغانستان میں داخل کیں تو اسی سال شاہِ ایران کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ایران سے رخصت ہو گیا۔ آیت اللہ خمینی کے ایران نے مغربی اقوام کیلئے اپنی 921 کلو میٹر طویل سرحد بھی ناممکن بنا دی۔ اس سرحد سے کبھی کوئی بُھولا بِسرا سیاح یا خطرات سے کھیلنے والا صحافی ہیلمند کے ریگستان عبور کرتا افغانستان میں داخل ہو جایا کرتا تھا۔ یہی وجوہات تھیں کہ افغان جنگ کے آغاز میں جو شخص افغانستان کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا تھا اسے بہت کچھ تصور کر لیا گیا، اور جس کسی نے کبھی ایک دو مضامین بھی تحریر کئے تھے اسے ’’ماہرِ افغان اُمور‘‘ کا درجہ، مقام اور مرتبہ مل گیا۔ افغانوں نے سوویت یونین سے لڑنا شروع کیا تو جنگِ عظیم دوم کے بعد سرد جنگ کی آگ سلگا کر آرام سے بیٹھے ہوئے مغرب نے انگڑائی لی۔ مغرب کیلئے افغانستان ایک ایسی سُرنگ تھی جس کے راستے وہ سوویت یونین کے فولادی قلعے میں نقب لگانا چاہتا تھا۔ لیکن وہ اس سُرنگ کے محلِ وقوع، گردوپیش، آباد بستیوں، بودوباش، غرض کسی بھی چیز سے واقف نہیں تھا۔ اندھے کنویں میں کون چھلانگ لگاتا ہے۔ اسی لئے ان گِنے چُنے ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کو دُنیا بھر میں تلاش کیا گیا۔ انہیں قیمتی متاع سمجھ کر نوازا گیا۔ لائبریریوں میں پڑی کتابوں سے گرد جھاڑی گئی۔ لاتعداد مضمون پرانی تحقیق کے بل بُوتے پر تحریر ہوئے لیکن عقدہ ابھی بھی حل نہ ہوا۔ موجودہ افغانستان کو مکمل طور پر جاننے والے اب بھی بہت ہی کم تھے اور جنگ کے شعلوں میں کوئی کودنا نہیں چاہتا تھا۔ ایسے میں روزمرہ تاریخ کا پیٹ کون بھرتا۔ یہ تھا وہ سوال جس نے ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کی ایک نسل کو پروان چڑھایا۔ افغانستان کے اس بند مرتبان جیسے خطے کا مشرقی دروازہ جو پاکستان میں کھلتا تھا اسے جنگ نے مکمل طور پر کھول دیا۔ اب صرف پاکستان ہی ایک ایسا ملک رہ گیا تھا جہاں ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کی فصل بوئی جا سکتی تھی۔ یوں مغربی سرمائے کی کھاد اور سوویت یونین سے جنگ کی کیڑے مار ادویات کی وجہ سے ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کا بیج ایسا پَھلا پُھولا کہ ’’ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی‘‘ ۔ جس کسی کو ’’پشتو‘‘ یا ’’دری‘‘ زبان پر دسترس حاصل تھی اور جو جنگ زدہ افغانستان سے ’’حسب خواہش‘‘ جھوٹی سچی خبریں لا سکتا تھا، اس کا مرتبہ و مقام ایک ’’ماہر‘‘ سے کم نہ تھا۔ اقوامِ متحدہ کے ہر سب آفس میں، عالمی این جی اوز کے دفاتر میں، امریکی اور یورپی ملکوں کے سفارت خانوں میں ایک ’’ماہر افغان اُمور‘‘ اعلیٰ مشاہرے اور مراعات کے ساتھ ضرور موجود ہوتا۔ شروع شروع میں جن لوگوں نے محض ایک مترجم کی حیثیت سے ’’گوروں‘‘ کے ساتھ نوکری کا آغاز کیا تھا وہ چند سالوں میں ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کہلانے لگے۔ ان میں زیادہ تر وہ تھے جو افغانستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے لیکن نسبتاً خوشحال گھرانوں سے تھے اور کیمپوں کی بجائے شہروں میں مقیم ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی یونیورسٹیوں، اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بھی ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کی ایک نئی دُنیا آباد ہو گئی۔ تھوڑی بہت تاریخ، حالات حاضرہ اور پشتو یا دری جاننے والوں کیلئے یہ کام بہت آسان تھا۔ آپ کو صرف ویسا ہی تجزیہ لکھنا تھا جیسا مغرب یا امریکہ چاہتا تھا اور آپ بے دھڑک جو چاہے کہہ سکتے تھے کیونکہ کون افغانستان کی جنگ کی آگ میں کود کر وہاں جائے گا اور معلوم کرے گا کہ آپ نے سچ بولا ہے یا جھوٹ۔ جو ’’ماہرِ افغان اُمور‘‘ جتنا زیادہ چرب زبان، قصہ گو، کہانی نویس اور افسانہ طراز تھا، اتنا ہی مقبول، معروف اور مشہور کہلایا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کی چرب زبانی کی بھول بھلیوں میں اُلجھ کر اور جن کے تجربوں کو حقیقت جان کر امریکہ اپنی تمام طاقت اور غرور کے ساتھ افغانستان کی دلدل میں ایسا اُترا کہ خاک چاٹ کر وہاں سے نکلا۔ جب تک امریکہ وہاں موجود رہا ان ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کی چاندی تھی۔ ان کے دن سہانے اور راتیں آباد ہوتی رہیں۔ یہی ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ ہی تھے جنہوں نے گزشتہ بیس سال حقیقت سے دُور تبصرے کئے اور ایسی بے پر کی خبریں پھیلائیں کہ انہیں خود بھی اپنے ہی جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگا تھا۔ کیونکہ ان کا یہ جھوٹ ان کی اپنی خواہش، آرزو اور خوابوں کی تکمیل تھا۔ ان کا صرف ایک ہی سہانا خواب تھا کہ امریکہ قیامت تک یہاں سایہ فگن رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے ڈیڑھ سال قبل جب امریکہ نے طالبان سے معاہدہ کر کے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا تو یہ تمام ’’ماہرین‘‘ اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو بچانے کیلئے ایک دَم پُکار اُٹھے، …رُکو… تھوڑی دیر رُک جائو، افغان سکیورٹی فورسز کے شیر دل تین لاکھ افغانوں کو تو آزماتے ہوئے جائو۔ یہ شیر افغان اکیلے ہی طالبان سے نمٹ لیں گے۔ اسی جھوٹ کی چکا چوند سے چندھیائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی یہی دعویٰ کر دیا اور پھر وہ ساری بساط ہی اُلٹ گئی ۔ بیس سال جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے والے ’’ماہرینِ افغان اُمور‘‘ کو آج بھی یقین نہیں آ رہا کہ امریکہ چلا گیا ہے۔ طالبان آ چکے ہیں۔ وہ ہر صبح آنکھ ملتے ہوئے اُٹھتے ہیں اور خود ہی سے سوال کرتے ہیں کہ افغانستان میں ابھی تک خانہ جنگی کیوں شروع نہیں ہوئی۔طالبان ناکام کیوں نہیں ہوئے؟