احمد اعجاز

تباہی کیوں زیادہ ہوتی ہے؟

میرپور زلزلہ ،محلوں کے مکین خیموں میں ،لوگوں پر کیا بیتی؟آنکھوں دیکھاحال

 

24،ستمبر 2019ء سہ پہر چار بج کر دو منٹ ہوئے ہیں ۔یہاں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے ۔لیکن اچانک زمین میں گڑگڑاہٹ ہوتی ہے ۔خوفناک آوازیں آتی ہیں اور زمین لرزنے لگتی ہے ۔ہر طرف شور مچ جاتا ہے لوگ جان بچانے کے لئے گھروں اورد فاتر سے باہر نکلتے ہیں ۔چیخوں اور بچائو ،بچائو کی آوازیں تیز ہوتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ تھمنے لگتی ہیں ۔تقریباً تمام کچے گھر زمین بوس ہو چکے ہیں ،پکے گھروں میں دراڑیں آ چکی ہیں اور بعض جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں ۔مائیں اپنے لختِ جگر کو ڈھونڈ رہی ہیں ۔باپ تنکہ تنکہ جوڑ کر بنائے گئے آشیانوں کی تباہی پر ماتم کناں ہیں اور بزرگ الاماں الحفیظ کا ورد کر رہے ہیں ۔

منگلا ڈیم کے کنارے پر آباد میر پور جسے پاکستان کا انگلینڈ کہا جاتا ہے اس میں اب رفتہ رفتہ شام اتر رہی ہے ۔سائرن بجاتی ایمبولینسوں کا رخ میر پور کے ضلعی ہسپتال کی جانب ہے جہاں پر زخمیوں اور جاںبحق ہونے والے افراد کو لایا جا رہا ہے ۔شہر کا شہر ہسپتال میں امڈ آیا ہے ،لوگ اپنے زخمی رشتہ داروں کے ساتھ ہیں ،خون عطیہ کرنے والے نوجوان بھی بڑی تعداد میں آ چکے ہیں۔فلاحی ادارے اور پاک فوج پوری طرح حرکت میں آچکے ہیں ۔زخمیو ںکو ملبے سے نکالنے کا عمل فوج نے سنبھال لیاہے ۔فلاحی اداروں کے کارکن زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے سے لے کر جان بچانے والی ادویات کی فراہمی تک ہسپتال عملے کے شانہ بشانہ ہیں ، میر پور کے شہری اور فلاحی ادارے مسلم ہینڈز کی جانب سے ہسپتال میں مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والوں کے لئے کھانے کی فراہمی شروع کر دی جاتی ہے ۔رات سسکیوں اور مرنے والوں کی تجہیز و تکفین کے انتظامات میں گزر جاتی ہے ۔اگلے روز زلزلے کی تباہ کاریوں کا ابتدائی جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ 5اعشاریہ 8شدت کے اس زلزلے کی گہرائی صرف دس کلومیٹر تھی۔ میر پور کی تحصیل جاتلاں میں اس کا مرکز تھا اور زیادہ تباہی بھی اس کے نواحی دیہات میں ہوئی ۔زلزلے کے دس دن بعد جو اعدادو شمار جاری کئے گئے، ان کے مطابق اس زلزلے سے 122دیہات متاثر ہوئے جن کی  کل آبادی 122787افراد پر مشتمل ہے ۔یہاں کل گھروں کی تعداد 26161ہے جن میں 6000گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ مویشیوں کے تباہ ہونے والے باڑوں کی تعداد7100ہے ۔زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 40ہے اور 679افرادزخمی ہوئے ہیں ۔

زلزلے کے ابتدائی دو ہفتوں میں ریلیف ورک  کے پہلے مرحلے پر عمل در آمد کیا گیا جس کے تحت متاثرین میں خیموں کی تقسیم اور انہیں علاج معالجے سمیت انہیں پکے پکائے کھانے اور خشک راشن پہنچایا گیا ۔چونکہ زلزلے سے بارہ مربع کلومیٹر کے علاقے میں تباہی ہوئی تھی اس لئے این ڈی ایم اے،کے ساتھ متاثرین کی اشک شوئی کی تمام تر ذمہ داری فلاحی اداروں نے لے لی اور انہیں گھروں میں پکا پکایا کھانا فراہم کیا جانے لگا ۔ 2005ء کے زلزلے میں چونکہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اس لئے وہاں خیمہ بستیاں بسائی گئی تھیں جہاں کئی مہینے متاثرین کو رکھا گیا تھا بعد ازاں جب ان بستیوں کو ختم کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں کو یہاں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔اس لئے یہاں چونکہ زلزلہ سے تباہی بھی محدود دعلاقے میں ہوئی تھی اور دوسرا لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر اس لئے بھی جانے کو تیار نہیں تھے کیونکہ ملبے تلے ان کا قیمتی سامان دبا ہوا تھااس لئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ خیمہ بستیاں بنانے کی بجائے لوگوں کو ان کے گھروں میں ہی خیمے فراہم کئے جائیں ۔خیمے فراہم کرنے کی ذمہ داری این ڈی ایم اےنے اٹھائی اور اس کے لئے اسے ملک کے دیگر فلاحی اداروں کابھی تعاون رہا ۔خیموں میں متاثرین کو کھانے پینے کی فراہمی کے بعد اگلا مرحلہ متاثرین کے نقصان کے ازالے اور ان کی آبادکاری کا تھا جس کے لئے پہلے یہ ضروری تھا کہ یہ تو معلوم ہو کہ نقصان کا درست تخمینہ کیا ہے ؟ کتنے گھر ایسے ہیں جو رہنے کے قابل نہیں ،کتنے گھر ایسے ہیں جن کے مکین انہیں خود تعمیر کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت ا ور این ڈی ایم اے مکمل ناکام ثابت ہوئی اور بروقت سروے شروع نہیں ہو سکا ۔کیونکہ اس حوالے سے کوئی باضابطہ طریقہ کار ہی موجود نہیں تھا ۔یہی وجہ ہے کہ جب ملکی ، بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کے اداروں کے حکام یہ پوچھتے کہ انہیں بتایا جائے کہ نقصانات کتنے ہیں تاکہ وہ فی الفور رقوم مختص کر کے بحالی کا کام شروع کر سکیں تو کسی ادارے کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا ،فرضی اعدادوشمار پیش کر دیئے جاتے جن کی قبولیت ممکن نہیں تھی ۔ 

جب یہ زلزلہ آیا تو وزیراعظم پاکستان عمران خان اقوامِ متحدہ اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک میں تھے چنانچہ واپس آتے ہی انہوں نے متاثرہ  علاقوں کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا ۔30ستمبرکو ان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ،وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور ،وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر ،صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بھی تھے ۔انہوں نے ڈسٹرکٹ ہسپتال میر پور میں زخمی افراد کی عیادت کی انہیں زلزلے سے متعلق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بریفنگ دی گئی ۔جس  پر انہوں نے متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس حوالے سے ایک جامع پیکج بھی تشکیل دیا جائے ۔ایک روز پہلے تک یہ طے تھا کہ وزیراعظم متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کریں گے لیکن شاید سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ان کو دورہ مختصر کر دیا گیا اور وہ میر پور سے ہی واپس چلے گئے جس کی وجہ سے متاثرین میں بد دلی پھیلی کیونکہ وہ توقع کر رہے تھے کہ انہیں اپنے مسائل براہ راست وزیر اعظم کے گوش گزار کرنے کا موقع ملے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا ۔

زلزلہ زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کے پہلے مرحلے میں اس لئے بھی مشکل پیش نہیں آئی کہ حکومت کے ساتھ بڑی تعداد میں فلاحی ادارے بھی میدان میں موجود تھے ۔لیکن اب اگلا مرحلہ کیسے شروع ہو اس حوالے سے آزاد حکومت ،اسلام آباد کی جانب دیکھ رہی ہے اور اسلام آباد اس انتظار میں ہے کہ چونکہ تباہی ایک محدود علاقے میں آئی ہے ا س لئے فلاحی ادارے اور مقامی انتظامیہ معاملات سنبھال لے گی ۔اس کشمکش میں سردیاں سر پر آ کھڑی ہوئی ہیں ۔راتیں روز بروز سرد سے سرد تر ہوتی جا رہی ہیں ۔خیمے کسی صورت سردی سے بچا نہیں سکتے اور وقت اتنا کم ہے کہ سردیوں سے پہلے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر بھی نہیں ہو سکتی ۔اس صورتحال میں متاثرین بالخصوص وہاں بچوں ، عورتوں اور بزرگوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور حالات کا تقاضا ہے کہ وہاں جلد از جلد کوئی حکمت عملی بنا کر اس پر عمل در آمد کیا جائے ۔

گھر کے ملبے پر بیٹھا ایک شاعر 

سائیں سخی قربان

سائیں سخی قربان کا تعلق ساہنگ میر پور سے ہے ۔اس کا گھر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس کا خاندان اسی ملبے میں لگے ہوئے خیموں میں مقیم ہے ۔ہمیں ریلیف ورکر راجہ قمر عطا نے بتایا کہ جب وہ ایک امدادی وفد کے ہمراہ سائیں قربان کے گھر گئے تو سائیں نے امداد لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس کے حق دار نہیں ہیں اور صرف اللہ ہی ان کی مشکلات کم کرے گا انہی سے معلوم ہوا کہ وہ سارا دن اپنے ملبے سے اپنی لائبریری کی کتابیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں ۔اور جو کوئی امدادی کارکن ان کا حال پوچھنے آتا ہے اسے اپنی کتاب دیتے ہیں اور اپنی شاعری سناتے ہیں ۔جب ہم ان کی شہرت سن کر ان کے شکستہ گھر میں پہنچے تو ان کے بیٹے نے کہا کہ مسئلہ حل کوئی نہیں کرتاانٹرویو کرنے آجاتے ہیں ۔سائیں نے اپنے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ زلزلہ میڈیا والوں نے نہیں لایا یہ اللہ کے حکم سے آیا ہے اور اللہ ہی سے مدد مانگو۔سائیں نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا اور اپنی کتاب ’’چراغِ راہ ‘‘ پیش کی ،سائیں کی یہ کتاب مظفر آباد کی مشہور روحانی ہستی سائیں سہیلی سرکار کے ذکر و افکار پر مبنی ہے ۔کتاب میں درج ان کے دو شعر:

دنیا ہے موج ِدریا سنبھلنے دے یا نہ دے 

عجیب چال ڈھال ہے اس کی سمجھنے دے یا نہ دے 

توں تو کچھ بھی نہ کر سکا اے قربان

دوگھڑی کا ہے جینا جینے دے یا نہ دے 

این ڈی ایم اے کہاں کھڑا ہے ؟

 نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، پروونشیل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اٹھارٹیز اور آزاد کشمیر کی سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز نے مل کر متاثرہ علاقوں میں جو امدادی سرگرمیاں کیں، ان کے مطابق 5030خیمے ، 769شیلٹر خیمے اور 420سکول خیمے تقسیم کئے جا چکے ہیں ۔جبکہ 6700گرم کمبل ، 2500 واٹر پروف چادریں ،260پلاسٹک میٹ،475کچن سیٹ،200ہائی جین کٹس،800مچھر دانیاں ،5475راشن پیکس (فی راشن پیک 25کلو پر مشتمل تھا)اورصاف پانی کی 50000بوتلیں شامل ہیں ۔جبکہ اس کے علاوہ 200صاف پانی کے بڑے کین ،200گیس سلنڈر،200واٹر کولراور 400فوم کے گدے بھی متاثرین میں تقسیم کئے گئے ۔چیئرمین این ڈی ایم اے  لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل  ایک متحرک آدمی ہیں  وہ اگر حکومت اور فلاحی اداروں کے اشتراک سے بحالی کی سرگرمیوں کا کوئی لائحہ عمل دیں تو مختصر وقت میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے ۔

 

متاثرین کو سردی سے کیسے بچایا جا سکتا ہے ؟

2005ء میں جب آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا ہ کے علاقوں میں زلزلہ آیا تھا تو ا س وقت بھی سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور زلزلے سے بچ جانے والے افراد کو ایک ایسے شیلٹر کی ضرورت تھی جو وقتی طور پر انہیں سردی سے بچا سکے اس حوالے سے فلاحی ادارے مسلم ہینڈز نے ایک شیلٹر ہوم کا تصور دیا تھا ۔یہ شیلٹر ہوم 10/30فٹ کے ایک ہال نما کمرے پر مشتمل تھا ۔جب اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے ضلع باغ میں شیلٹر ہومز کا افتتاح کیا تو اس کے بعد یہ تصور بحالی کی سرگرمیوں کا مرکزی حصہ بن گیا ۔اس کے بعد حکومت کے ساتھ ساتھ کئی ملکی اور بین الاقوامی فلاحی ادارے بھی آگے آ گئے جنہوں نے مل کر اس تصور کو آگے بڑھایا چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں اور ہزاروں شیلٹر ہومز بن گئے ۔اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ تباہ شدہ گھروں کا ملبہ موجود تھا جن سے دیواریں اٹھائی جا سکتی تھیں چھت میں لگنے والی شیٹیں اور تعمیر کے لئے مستری مزدوروں کا خرچہ متاثرین کو دیا گیا تو انہوں نے دنوں میں اپنے لئے سردیوں سے بچنے کی جائے پناہ بنا لی ۔بعد میںآنے والے سالوں میں جب وہ اپنے گھروں کی تعمیر دوبارہ کرنے کے قابل ہوئے تو یہی شیلٹر ہومز ان کے مال مویشیوں کے باڑے کے طور پر کام آئے ۔اس وقت بھی کسی ایسے ہی لائحہ عمل کی ضرورت ہے کیونکہ اکتوبر شروع ہے اور نومبر دسمبر شدید سردیوں کے مہینے ہیں ۔

مستقل آباد کا ری کا لائحہ عمل 

ایرا کے پا س2005ء کے زلزلے میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر کا ایک منظور شدہ ماڈل موجود ہے ۔اس وقت 462,546 گھر مکمل تباہ ہوئے تھے جبکہ موجودہ زلزلے میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد 6000ہے ۔ایرا کے ماڈل کے مطابق تین سو مربع فٹ پر مشتمل دو کمروں ،کچن اور باتھ سمیت گھر کی تعمیر پر آٹھ سے دس لاکھ روپے لاگت آتی ہے ۔گویا چھ ارب سے تمام گھروں کی تعمیر ممکن ہے ۔یہ تخمینہ صرف ان گھروں کا ہے جو کچے تھے اور جہاں غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے خاندان ہی رہائش پزیر ہیں جبکہ وہ عالیشان گھر جو تین تین منزلہ تھے اور جو مکمل طور پر تباہ ہوئے یا جزوی طور پر ان کی تعمیر نو کے لئے بھی حکومت کوئی فارمولہ واضح کر سکتی ہے کیونکہ عموماً ان گھروں کے مالکان یا تو متمول ہیں یا پھر وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، اس لئے وہ خود بھی استطاعت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے گھر بنا سکیں ۔علاوہ ازیں 6000تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو میں کئی فلاحی تنظیمیں بھی دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ اس سلسلے میں حکومتی اداروں کا ہاتھ بٹانے کے لئے تیار ہیں ۔اس سلسلے میں وہ یہ چاہتی ہیں کہ حکومت بتائے کہ وہ کتنے گھر تعمیر کرے گی تاکہ باقی گھر وہ مل جل کر بنا لیں ۔حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ان فلاحی اداروں کی مدد ضرور حاصل کریں جنہوں نے اس سے پہلے 2005ء کے زلزلے میں حکومت کا ہاتھ بٹایا تھا ۔اگر حکومت نے اپنے روایتی طریقے سے تعمیرات کرنے کی کوشش کی تو جو کام چھ ارب روپے میں ممکن ہو سکتا ہے شاید اس کے لئے ساٹھ ارب بھی کم پڑ جائیں کیونکہ اس صورت میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور فنڈز کی غلط تقسیم کا خطرہ ہوتا ہے ۔

پاکستان میں پے در پے زلزلوں کی وجہ کیا ہے ؟

 ماہرین ارضیات کے مطابق زمین کی اوپری سطح جسے کرسٹ کہا جاتا ہے وہ میگما کہلانے والے کھولتے ہوئے لاوے پرمختلف چٹانوں کے ٹکڑوں کی مانند قائم ہے جنہیں ٹیکٹونک پلیٹیں کہا جاتا ہے۔ میگما میں گرمی اور پریشر بڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے پلیٹوں میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور حرکت کی وجہ سے پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں جس سے ارتعاش پیدا ہوتی ہے جسے زلزلہ کہاجاتا ہے۔ کرہ ارض کی حرکت میں کمی کی وجہ سے خط استوا کے قطر میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسکی وجہ سے کرسٹ کی پلیٹیں اپنے آپ کو کم قطر میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے کے اوپر سرک رہی ہیں۔ جس کیوجہ سے نہ صرف زلزلوں کی شدت اور تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ زمین کی سطح پرمزید پہاڑی سلسلے ابھرنے اور آتش فشاں بننے کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی ہمالیہ سمیت تمام پہاڑی سلسلے اسی طرح سے بنے ہیں۔ پاکستان کا بڑا حصہ انڈین پلیٹ پر شامل ہے جبکہ یوریشیائی اور عرب پلیٹیں بھی یہاں سے گزرتی ہیں۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کے باعث زمین کی سطح کے ابھار کا سلسلہ لاکھوں سال سے جاری ہے اور ماہرین ارضیات کے مطابق اسی طرح سے ہمالیائی پہاڑوں کا ابھار ہوا ہے اور انکے ابھارمیں تین سینٹی میٹر تک کا سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ میرپورمیں زلزلہ جہلم کی فالٹ لائن میں سٹرائیک سلپ کی وجہ سے آیا ہے۔ سٹرائیک سلپ میں زمین کے دو حصے اپنی الٹ سمت میں حرکت کرتے ہیں اور یہ فالٹ لائن جہلم سے کوہالہ اور مظفرآباد کے درمیانی علاقوں تک جاتی ہے، منگلا ڈیم اورنیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ بھی اسی فالٹ لائن پر قائم ہیں، جبکہ کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹ بھی اسی فالٹ لائن پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور ہمالیائی خطے کے علاوہ پاکستان کا پوٹھوہار خطہ، ہزارہ، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان کا شہر کوئٹہ زلزلوں کی تقسیم کار میں شدید ترین زلزلوں کے خطرات سے دوچار زون میں شامل کئے گئے ہیں۔

جب امداد دینے والے امداد لینے والے بن گئے 

میر پور جسے پاکستان کا انگلینڈ کہا جاتا ہے، یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جس کے مکین بڑی تعداد میں ملک سے باہر رہتے ہیں ۔منگلا ڈیم کے کنارے پر پہاڑیوں پر پھیلے ہوئے ا س شہر میں عالیشان کوٹھیاں ہیں ،کھلی سڑکیں ہیں اور ان میں ہوٹلوں ،ریسٹورانوں اور  شاپنگ مالز کی ایک دنیا ہے ۔1960ء میں جب منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو میر پور سمیت 125گائوں خالی کرائے گئے اور انہیں متبادل جگہوں پر بسایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت نے ہر متاثرہ خاندان کو ایک پاسپورٹ دیا چونکہ دوسری جنگ عظیم سے میرپوری شہری برطانیہ میں آباد تھے، چنانچہ پاسپورٹ ملنے کے بعد بڑی تعداد میں برطانیہ ہجرت شروع ہو گئی ۔آج ایک محتاط اندازے کے مطابق سات سے آٹھ لاکھ میرپوری برطانیہ میں بستے ہیں۔جب بھی پاکستان میں کوئی آفت آئے یہ برطانوی شہری متاثرین کی امداد میں سب سے آگے ہوتے ہیں، مگر 24ستمبر کے اس تباہ کن زلزلے کی وجہ سے نہ صرف ان کے محل نما مکان تباہ ہوئے بلکہ پلک جھپکتے میں امداد دینے والے امداد لینے والے بن گئے ۔میرپور شہر میں جو پکے مکان گرے نہیں بھی ہیں وہ بھی اپنی بنیادوں سے ہل چکے ہیں اور ان کی ہر دیوار میں دراڑیں نمایاں ہو چکی ہیں جو کسی اور زلزلے کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ شہر کے ساتھ واقع منگلا ڈیم جو دنیا کا بارہواں بڑا ڈیم ہے وہ تباہی سے بچ گیا حالانکہ ڈیم کے بالکل ساتھ واقع گائوں کال کوٹھا میں زبردست تباہی ہوئی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ میرپور شہر سے پہلے یہاں منگلا نامی گائوں تھا جو ہندو دیوی منگلا کے نام پر ہے اس دیوی کو دولت و ثروت کی دیوی کہا جاتا ہے ۔اس کا ایک اندازہ آج کے میر پور کے لوگوں کی دولت و ثروت کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے ۔