اسلام آباد(خبر نگار ) عدالت عظمٰی نے افغانستان جانے والے چینی کے کنٹینرز روکنے سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ کسٹمز حکام پاک افغان ٹریڈ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کسٹم حکام کا موقف مسترد کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کس قانون کے تحت کسٹم حکام برآمد کی جانے والی اشیا کا معیار چیک کرتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیے کہ کسٹمز حکام کے پاس اگر غیر معیاری چیز روکنے کا اختیار ہوتو ہی اشیا کی کوالٹی چیک کر سکتے ہیں؟۔جمعرات کو افغانستان کو برآمد کی گئی چینی کسٹمز کی جانب سے روکنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تو جسٹس یحی آفریدی نے استفسار کیا کہ کسٹم نے کس قانون کے تحت چینی کے کنٹینرز کو روکا؟ جس کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر کسٹمز نے کہا کہ افغانستان کو بھجوائی جانے چینی غیر معیاری تھی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا چینی کا معیار چیک کرنا کسٹمز کا کام کب سے ہوگیا؟ کسٹمز حکام پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں رکاوٹ بن رہے ہیں،فاضل جج نے کہا ،چینی کی کوالٹی خریدار اور بیچنے والا جانے ، پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے اپنے قواعد ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پاکستان سے معیاری چیزیں ہی بیرون ملک جانی چاہیے کسٹم کے پاس غیر معیار چیز روکنے کا اختیار ہو تو ہی چیک کر سکتا ہے ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کسٹمز نے موقف اپنایا کہ رولز کے مطابق خطرناک اشیاء کی ترسیل روک سکتے ہیں جس پرجسٹس فیصل عرب نے کہا چینی خطرناک چیز کب سے ہوگئی؟جسٹس عمر عطاء بندیال نے کسٹمز کی کارکردگی پر سوالات اٹھا تے ہوے کہا کہ کسٹمز کے کسی مقدمہ میں عدالت کو معاونت نہیں ملتی، آج بھی کسٹم حکام یہ بتانے سے قاصر ہیں کس قانون کے تحت چینی کو روکا گیا، عدالت میں ایسے افسران کو بھجوایا جائے جنہیں قانون اور مقدمات کا علم ہو۔ عدالت نے کسٹمز حکام کو مقدمہ کی تیاری کیلئے آخری موقع دیتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔واضح رہے کہ کسٹمز حکام نے جون 2019 میں افغانستان جانے والے چینی کے 262 کنٹینر روکے تھے افغانستان جانے والی کھیپ کے 354 میں صرف 92 کنٹینر کلیئر کئے تھے ۔