مکرمی!یہ وہ ہولناک جملے ہیں جو ہم اکثر ہر طرح کے لوگوں سے ہماتن گوش کرتے ہیں چاہے وہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہو تجارت کے محبت کے یا کامیابی کے یا تبلیغ دین کے سلسلے میں اگر ہمیں کوء مشکل آجائے کوی ہماری چاہت کا مان توڑ دے یا کوی ہمارے بھروسے کا مزاق بنالیں تو ہم نے یہ اکثر کہتے لوگون کو سنا اور خود بھی کہا ہے کے فلان نے میری ذندگی اجاڑ دی مجھے دھوکہ دے کر میرے یقین کا مذاق بنا کر ہماری خوشیوں کو غموں میں بدل کر ہماری محبتوں کو احساسِ ندامت میں تبدیل کرکے ۔میں اکثر سوچتی ہوں۔کیا کوی اتنا بھی خود مختار ہوسکتا ہے جو ہماری زندگی میں خود مختاریاں کرتا پھرے ہماری زندگی میں اپنے اختیارات کا استعمال کرے ۔مگر وقت کے تجربہ نے مجھے سکھایا ہے کسی میں اتنی ہمت نھی کسی مین اتنی طاقت نہیں کے ہمیں مسکراہٹوں کے بدلے آنسو دے سکے ہمیں چاہتوں کے بدلے نفرتوں کا طوفان دے سکے کیونکے ہماری چاہت ہماری مسکراہٹ یہ ہماری زندگی کا تحفہ ہے اور اسے سنبھال کے رکھنا ہمارا معیار ہونا چاہئے ۔میں یہ بات یقین سے کہتی ہوں کے کسی انسان میں کیا کائنات کی کسی شے میں یہ طاقت نھی کے وہ ہماری زندگی ہماری مسکراہٹ ہماری ہمت ہمارے حوصلے کو بکھیر سکے ۔ہمارے ترقی میں رکاوٹ بن سکے ۔کیونکے جو راستہ ہم خود اختیار کرتے ہیں اس پر آنے والے ہر طرح کے موڑ سے ہم نے خود کو تیار رکھا ہوتا ہے اور یہی اک ذی عقل مخلوق کی نشانی ہے ۔اللہ نے انسان کو ذی عقل بنایا کائنات کی تخلیق میں صرف انسان ہی کو عقل کے احسان سے نوازا کیوں ؟؟؟؟کیوں کے رب کریم نے انسان کے زمرے میں اتنے ہی عظیم تجرے رکھے تھے اتنی ہی عظیم فتوحات لکھی تھی کائنات میں راج کرنا لکھا تھا۔اور یہ تبھی ممکن ہے جب بندہ اپنے ذی عقل ہونے کا یقین رکھے اپنے ذی عقل ہونے پر عمل پیرا ہو اپنے ذی عقل ہونے کی وجہ سے زیست کے ہر سفر ہر موڑ ہرکامیابی ہر عسرت اور یسرت پر اپنے حواس کو بحال رکھے اور اسکی بہترین انداز میں تمثیل اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ملتی ہے جب کوی دھوکہ دے ابی بن سلول کی طرح جنگ کے میدان میں تنہا چھوڑنے کا تو ہمت نہیں ہارنی جس رب کے دین کی سربلندی کے لئے نکلے ہو اسی سے لو لگائے رکھو ۔بجائے واویلا کرنے کے ۔جب کوء تبلیغ اسلام کی دعوت میں آپ پر پتھر برسائے تو بجائے دنیا کے تقاضے کو پورا کرنے کے انکو بددعاء دینے کے ذی عقل کا کردار ادا کرنا ہے اور صبر کرنا ہوتا ہے ۔ (اقصیٰ سمند خان)