جناب مشتاق احمد یوسفی نے اپنے عمومی مزاج کے بالکل برعکس نہ صرف ایک شخصیت کا باکمال انداز میں خاکہ لکھا بلکہ اسے بالاہتمام اپنی آخری کتاب ’’شامِ شعر یاراں‘‘ میں اولیت اور فوقیت کے ساتھ شامل کیا۔ خاکے میں شگفتگی کا درجہ تو ان کی بقیہ تحریروں کے مقابلے میں کم ہے لیکن شستگی و وارفتگی حد سے زیادہ ہے۔ کتاب کے ابتدائی بتیس صفحات پر محیط اس خاکے کا عنوان ’’قائدِ اعظم فوجداری عدالت میں‘‘ ہے۔ یہ اہلِ ذوق کے لیے ایک قابلِ رشک تحریر ہے۔اصل میں تو یہ جناب یوسفی کے زمانۂ طالب علمی کی روداد ہے، جب وہ گریجوایشن کے بعد مزید تعلیم کے سلسلے میں آگرہ میں اپنے جگری دوست مسرور حسن خاں کے ہاں مقیم تھے۔ قبل ازیں آگرہ سے متعلق کچھ زیادہ نہ جاننے کا بیان جاری کرنے کے باوجود ، آگرہ سے متعلق ان کی معلومات کا انداز ملاحظہ فرمائیے: ــ’’آگرے کے بارے میں میری معلومات نظیر اکبر آبادی، مخمور اکبر آبادی، غالب کی جائے پیدائش، تاج محل، آفتابِ موسیقی استاد فیّاض خاں، جفت سازی، فلم برسات کی ایکٹرس نمی، سینٹ جانس کالج میں لڑکیوں کی امید افزا تعداد، پیٹھے کی مٹھائی اور دال موٹھ تک محدود تھیں۔‘‘ جب یوسفی صاحب کو اپنے دوست کی زبانی علم ہوا کہ برِ عظیم کے عظیم سیاسی و اخلاقی رہنما جنابِ قائد اعظم محمد علی جناح کسی فوج داری مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں گاہے گاہے آگرہ تشریف لاتے رہتے ہیں، تو ان کے دیدارِ قائد کے اشتیاق کا عالم دیدنی تھا۔ جب ان کے دوست جناب مسرور حسن خاں نے عدالت میں ساتھ لے جانے کی یہ شرط رکھی کہ اس سے قبل آپ اور مظفر حسن برنی کو میرے ساتھ تاج محل کے گنبد تک چڑھائی کرنا ہوگی اور اس کے کلس کی نوک کو چھو کر آنا ہوگا، تو بھی ان کی کیفیت یہ تھی: ’’قائدِ اعظم کو عدالت میں بحث و جرح کرتے دیکھنے کا شوق اتنی شدت اختیار کر چکا تھا کہ ہم ہر شرط ماننے کو تیار تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قائدِ اعظم کو مسلم لیگ کے عام جلسوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں شیدائیوں نے دیکھا اور سنا ہوگا۔ہم ان معدودے چند لوگوں میں اپنا شمار کروانا چاہتے تھے ، جنھوں نے قائد کو پروفیشنل رول میں بالکل قریب سے دیکھا اور آج جب پورے چھیاسٹھ برس بعد مَیں یادوں کو سمیٹنے بیٹھا ہوں تو با خبر حضرات نے مجھے باور کرایا ہے کہ زندوں میں اب میں واحد شخص ہوں جسے یہ شرف حاصل ہوا۔ شوقِ دیدارو سماعت اتنا شدید تھا کہ تاج محل کیا چیز ہے ہم قطب مینار اور آئفل ٹاور پر بغیر لفٹ کے یعنی پَیر پیدل سو دفعہ چڑھ سکتے تھے۔‘‘ مختصر یہ کہ یوسفی جیسی عظیم و دل پذیر شخصیت نے بلا شبہ برِ عظیم کی سب سے بڑی ہستی کی پر وقار شخصیت اور ان کے اندازِ وکالت کی جس محبت اور مہارت سے تصویر کشی کی ہے، اسے پڑھنے کے بعد اس پیشے پر ٹوٹ کے پیار آتا ہے۔ آج ان کی وکالت اور دیانت کی سیکڑوں مثالوں سے تاریخ و سیاست کی کتب بھری پڑی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ دلیل کا کام دھونس سے اور اصول کی بات زور سے نہیں منواتے تھے۔ اس کے بعد برِ عظیم ہی کی دوسری اور اردو و فارسی ادب کی سب سے مہان ہستی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی زندگی کے تمام گوشے ہر ذی شعور پر عیاں ہیں کہ انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج ، حتیٰ کہ کیمبرج تک کی تدریس پر وکالت کو ترجیح دی۔ نہ صرف ترجیح دی بلکہ اس پیشے کی عظمت کو چار چاند لگانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا۔یہ دونوں ہستیاں ایسی ہیں کہ برِ عظیم ہند میں جن کا نام دشمن بھی احترام و عقیدت سے لیتے ہیں بلکہ وطنِ عزیز پاکستان کی تخلیق و تجلیل میں ان سے بڑا حوالہ ہی ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ پھر ان کے علاوہ بھی وطنِ عزیز کی قریبی تاریخ سے اسی پیشے سے وقار ، شہرت اور نیک نامی کمانے والے با اصول لوگوں کی درجنوں مثالیں گھڑی بھر میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ انھی لوگوں کی وجہ سے اس پیشے کو نہایت عزت اور احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ ڈاکٹری ، انجنیئرنگ، بزنس، شوبزنس اور آئی ٹی وغیرہ کا سٹیٹس میں داخل ہو جانا تو ابھی کل کی بات ہے، ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ شرفا کے گھرانوں میں مائیں بہنیں اپنے چھوٹوں کے لیے اسی طرح کی دعائیں مانگا کرتی تھیں کہ : ’’میرا بیٹا بڑا ہو کے جج بنے گا۔‘‘ ’’ میرا بھائی پڑھ لکھ کے وکیل بنے گا۔‘‘ ہماری بد قسمتی کہ رفتہ رفتہ اخلاقی اقدار کے زوال، مالی ترجیحات کے وبال اور ر آنکھوں پہ ذاتی مفادات کی پٹی باندھ لینے کی وجہ سے قانون سے متعلقہ یہ پیشے اور ادارے بے توقیر ہوتے چلے گئے ۔ اس شعبے کے وقار اور نمود پہ پہلی زد اگرچہ ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں کی حکومت میں پڑی تھی جب وہ اپنے مطلب اور مفاد کے فیصلے کروانے کی خاطر بعض نا اہلوں کو مالی و مادی مفادات کے عوض اپنا ہم خیال بنا لیتے تھے۔ اسی زمانے کے ایک دیدہ ور، ظریف اور لسان العصر جناب اکبر الہٰ آبادی، جو خود بھی پہلے وکیل اور پھر جج کے عہدے پر فائز رہے، سخت نوٹس لیا تھا۔ صرف ایک شعر دیکھیے: ؎ جج بنا کر اچھے اچھوں کا لبھا لیتے ہیں دل ہیں نہایت خوشنما دو جیم ان کے ہاتھ میں اس شعبے کا اصل زوال مشرف دور میں شروع ہوا ، جب افتخار چودھری تحریک میں انھوں نے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا۔ میڈیا ان کو ہیرو بنا کے پیش کرتا رہا لیکن اہلِ نظر جانتے ہیں کہ یہ طبقہ محض چند لوگوں کے ذاتی مفادات اور خواہشات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اگرچہ اس طبقے میں کالی بھیڑیں پہلے بھی موجود تھیں، جن کی طرف ہمارے موجودہ زمانے کے ایک ظریف جناب انورمسعود نے اشارہ کر رکھا ہے: ؎ قبضہ دلا دیا مجھے میرے مکان کا میرے جو ہیں وکیل وہ عدیم النظیر ہیں فیس ان کی پوچھتے ہو تو اب اس مکان میں خود حضرتِ وکیل رہائش پذیر ہیں افتخار چودھری تحریک میں میڈیا نے ان لوگوں کے اعتماد کے غبارے میں اتنی ہوا بھر دی کہ کالا کوٹ روز بہ روز عدالتوں، ہسپتالوں، مختلف دفتروں، حتیٰ کہ سڑکوں بازاروں میں فلمی سلطان راہی کا رول ادا کرتا نظر آنے لگا۔مرد وکیل تو رہے ایک طرف اس شعبے کی خواتین بھی سرِ عام بپھری میں دکھائی دینے لگیں۔ گیارہ دسمبر کی دوپہر میڈیا، سوشل میڈیا اور زمانے کی آنکھ نے اس پھولے ہوئے غبارے کو لوگوں کے دلوں کے بیچ پھٹتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس معاملے سمیت کچھ عرصے سے ملک کے عدالتی و قانونی معاملات میں سابقہ حکومت کا نظر آنے والاکردار اور بھی شرم ناک ہے۔ جواز کیسا بھی ہو، دلیل کوئی بھی ہو ، اس وقت سوال یہ ہے کہ دل والے ہسپتال پہ حملے کے بعد اس طبقے کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور غصے کا جو الاؤ دہک رہا ہے، کیا اس کو کبھی بجھایا جا سکے گا؟ سچ بات تو یہ ہے کہ ان دنوں ہم نے لوگوں میں ان چہ میگوئیوں کو بھی سرِ عام پروان چڑھتے دیکھا ہے کہ کیا اسلام کے نام پہ وجود پانے والی اس ریاست میںاس طرح کی عدالتوں اور وکالت جیسے خرخشوں کی گنجائش بھی ہے؟؟؟