کس نے سیکھا ہے نقش پا رکھنا پیر اٹھایا تو آ گیا رکھنا وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا یہ زمین انہی کی ہے جن کے حوصلے ہیں زیادہ۔ کامیابیاں اور کامرانیاں آخر انہی کے قدم چومتی ہیں جو بندشوں اور رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر اپنا سفر روکتے نہیں بلکہ اس کو منزل بنا لیتے ہیں۔ راہ میں مشکلات اور دشواریاں تو آتی ہیں۔ ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور یا پھر جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر’’والا معاملہ‘‘جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے۔ بہرحال کہیں مفاہمت اور مصالحت نہیں ہے۔ ہاں ایک بات طے ہے کہ مقصد عظیم ہونا چاہیے کہ سعی اور جستجو بارور ہو تو عظمت و وقار حصے میں آئے۔ پہلی بات تو یہی میں کرنا چاہتا تھا کہ اچھے کام کا آغاز تو ہونا چاہیے۔ وہی جسےInitiativeکہتے ہیں۔ اس تمہید کا باعث ایک نامعلوم شعر بنا جسے ہمارے دوست سید ندیم گیلانی نے بھیجا: کیسے کہہ دوں کہ تھک گیا ہوں میں جانے کس کس کا حوصلہ ہوں میں ہائے ہائے مجھے اس کے ساتھ تاریخ کے کیسے کیسے واقعات یاد آئے۔ مثلاً ایک واقعہ تو سید زادے یعنی ابوالاعلیٰ مودودی کا واقعہ یاد آیا کہ جب موچی دروازے میں ان کے جلسے پر گولی چلی تو ان سے محبت کرنے والے پروانوں کی طرح ان کی طرف آئے کہ آپ بیٹھ جائیں۔ مولانا نے تاریخی جملہ کہا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کوکون رہے گا۔ دوسرا جب ان کو پھانسی کا حکم ہوا تو سب نے کہا آپ اپیل کر دیں۔ انہوں نے کہا امام اپیل نہیں کرتا۔ مجھے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کا تو کچھ زیادہ ہی خیال آیا کہ وہ لاغر جسم کہ جس نے اپنے کاندھوں پر پوری قوم کی ذمہ داری اٹھا رکھی تھی۔ وہ تمام مسلمانوں کا حوصلہ بنے ہوئے تھے۔ کون جانتا تھا تپ دق موذی مرض انہیں اندر سے چاٹ رہی تھی۔ مگر وہ کتابی جسم کا حامل سنجیدہ اور متین شخص سینے کی جلن چھپائے سوچ رہا تھا۔ جانے کس کس کا حوصلہ ہوں میں۔ وہ قدم بڑھاتا گیا اس کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ شاید وہ مسلمانوں کی محبت کو اپنی توانائی بنائے ہوئے تھے۔یا پھر ان سے ملنے والے اعتماد اور بھروسے کو اپنا محرک ۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے حوالے سے کہا کہ چائے گھر سے پی کر آئیں۔ اتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے کہ کئی کالم کام آ جائیں۔ قتیل شفائی یاد آ گئے: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا میں بات اصل میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ کسی بھی سطح پر ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ میرا دھیان عمران خاں کی طرف گیا اور آپ یقین کریں کہ میرا مقصد ان کا قائد اعظم سے موازنہ نہیں وہ تو موازنہ کرنے والے نواز شریف کو بھی قائد ثانی کہتے رہے۔ میں مگر مناسبت سے کچھ بات ضرور کروں گا کہ کچھ کام جو ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھے۔ وہ خان نے کر کے دکھائے اور یہ بات آپ کے لئے کوئی انکشاف بھی نہیں ہے۔ کرکٹ کے شائقین جانتے ہیں کہ جب وہ بائولر بننے آئے تو ان کی تیز بال کبھی مشرق کو جاتی تھی تو کبھی مغرب میں یعنی نہ کوئی لائن لینتھ اور نہ کوئی اور خوبی۔ مگر وہ طے کر چکے تھے کہ انہوں نے فاسٹ بائولر بننا ہے۔ پھر انہوں نے ورلڈ کپ جیت کر دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ ہٹ کے پکے ہیں۔ ایسے پرعزم آدمی پر اللہ بھی مہربان ہو جاتا ہے انہوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال بناکر اپنی قوم کے دل جیت لئے اور پھر انہوں نے نمل یونیورسٹی بنائی یعنی صحت اور تعلیم کے حوالے سے ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کیں۔ اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ پے درپے کامیابیاں سمیٹنے والے حکومت چلانے میں ناکام کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر میں بھی ناقد بن گیا مگر یہ نہیں دیکھا کہ نظام بدلنا ایک شخص کا کام نہیں۔ یہاں تو مولانا طارق جمیل جیسا شخص ایک سچ بولے تو اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ سچ کے سوا یہاں سب چلتا ہے۔ ایک شعر کسی کا مجھے تنگ کر رہا ہے: بعد موت اسے صیاد نے چھوڑا بھی تو کیا تاب پرواز نہیں راہ چمن یاد نہیں دشمنوں کو تو چھوڑیں کہ وہ دشمن ہیں‘ انہیں دوست ملے تو وہ بھی ایسے کہ کہنا پڑا ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘یا پھر انہیں بے اختیار بنا کر گدھوں اور چیلوں کے جلو میں لایا گیا۔ ان کے اڑنے سے پہلے ہی پرکاٹ دیے گئے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک دیانتدار اور مخلص آدمی واقعتاً ایسے بدل گیا کہ ہر ڈھیل اور ڈیل اس کے گلے آن پڑی۔ مزے کی بات یہ کہ وہ بیڑیاں اور طوق پہنے ہوئے بھی عادتاً کہہ رہا ہے کرپٹ لوگوں کو چھوڑوں گا نہیں۔ فرانزک رپورٹ کی تاریخ آئی اور گزر گئی مگر اب تاخیری حربے استعمال ہونے لگے۔ مجرم نما ملزم خود حکومت میں بااختیار ہیں تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں‘‘ میرے پیارے اور معزز قارئین!آپ یقین مانیے میں قلم برداشتہ لکھ رہا ہوں۔ مجھے کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی۔ جو کچھ میری سمجھ میں آتا ہے۔ بیان کئے جا رہا ہوں کہ نظام نے بڑوں بڑوں کے کس بل نکال دیے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ انقلاب تو اسی کو کہتے ہیں کہ نظام بدلا جائے۔ ایک نظام کے تابع آنے والا شخص اسے کیسے بدلے گا‘ وہ خود ہی خود آپ بدل جائے گا۔ اب آپ خود دیکھیے کہ اگر شہباز شریف بھی جالب کی نظمیں پڑھے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ عمران خان اگر جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی مدد سے طاقت حاصل کرے تو وہ عوام کی کیا دل جوئی کرے گا۔ آٹا اور چینی عوام کی ضرورت ہے اور ان سرمابہ دار اور جاگیردار سیاست دانوں کی طاقت اور اس طاقت کا استعمال وہ عمران خاں سے کروائیں گے۔ جو بھی ہے ہلکی آواز اب بھی آتی ہے! کیسے کہہ دوں کہ تھک گیا ہوں خدا کرے کہ کوئی راستہ نکل آئے کہ برا وقت تنہا نہیں آتا۔ مشکلات میں گھری ہوئی قوم پر ایک آفاقی وبا بھی آن پڑی ہے۔ غربت کے مارے لوگ سوئے آسمان دیکھتے ہیں۔ بات پھر وہی آئی ہے کہ ہمیں جھوٹ‘ فریب ‘ ملاوٹ‘ حرام خوری سے باز آنا پڑے گا۔ کاش کوئی مولانا طارق جمیل کی بات پر ہنس کر ہی کہہ دیتا ’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘