عبدالحق اگرچہ مولانا نہیں تھے مگر وہ لدھیانہ کے امیر ترین شخص تھے اور علماء میں اْن کی پہچان ابدال کی ہوتی تھی۔ جب دوسری عالمی جنگ اختتام پذیر ہوئی تووہ اپنی دولت اور جائیداد بیچ کر سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں انہوں نے کھجوروں کے باغات خریدے اور وہیں کاروبار شروع کردیا۔ اِ س دوران عبدالحق کی بڑی بیٹی عنایت بی بی کی مدینہ میں وفات ہوگئی۔ اِس حادثہ نے عبدالحق پر اِتنے گہرے اثرات مرتب کئے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ بیچ دیا اور دوبارہ ہندوستان آگئے اور دوبارہ سے کاروبار شروع کردیا۔ ابھی کاروبار نے چلنا ہی شروع کیا تھا کہ پاکستان معرض ِ وجود میں آ گیا اور یہ خاندان ہجرت کرکے فیصل آبادمیںآباد ہوگیا۔عبدالحق کی ایک بیٹی ثریا اور بیٹے پیدا ہوئے۔ جن میں عبدالعزیز سب سے بڑے تھے جو 1948 میں سعودی عرب چلے گئے۔ انہوں نے سعودی عرب میں گھڑیوں کا کاروبار شروع کردیا۔ وہ 1980تک اِسی کاروبار سے منسلک رہے۔ مکہ میں انہوں نے ’باک محل‘ یعنی (پاکستان محل) کے نام سے گھڑیوں کی ڈسٹریبیوشن سنبھال رکھی تھی۔ اِس دوران انہوں نے پاکستان میں بھی سرمایہ کاری کی۔ اسلام آباد میں انہوں نے اسلام آباد کا پہلا فائیوسٹار ہوٹل قائم کیا۔ کئی حکومتی رہنماؤں نے کوشش کی کہ اِس ہوٹل میں ’شراب‘ نوشی کی اجازت ہو مگر عبدالعزیز نے اپنے ہوٹل کو شراب جیسی لعنت سے پاک رکھا۔ساتھ ہی انہوں نے فیصل آباد میں سب سے بڑا کپڑوں کا کارخانہ ’فیصل آباد ٹیکسٹائل مل‘ کے نام سے لگایا۔ پاکستان بنتے وقت عبدالحق کے ساتھ لدھیانہ سے ایک اور خاندان نے بھی فیصل آباد ہجرت کی۔ یہ مفتی محمد نعیم کا خاندان تھا۔ مفتی محمد نعیم کے خاندان کا شماربھی لدھیانہ کے نامور علماء اور مفتیان ِ کرام میں ہوتا تھا۔ مفتی محمد نعیم سے ایک بیٹے ضیا ء الحسین پیدا ہوئے جنہوں نے باقائدہ مولنا حسین احمد مدنی سے تعلیم حاصل کی۔ فیصل آباد میں ضیاء الحسین کی شادی عبدالحق کی بیٹی ثریا سے ہوئی۔ ضیاء الحسین کے ثریا بیگم سے چھ بچے ہوئے جن میں تین بیٹیاں اور تین بیٹے شامل تھے جن میں احسن ضیائ، شاہد احمد ضیاء اور احمد سعید مفتی جبکہ بیٹیوں میں ریحانہ، شہنہ اور تیسری بیٹی خدیجہ پیدا ہوئیں۔ احسن ضیاء 1978 میں بطور طالب علم الیکٹرانک انجینئرنگ کرنے جاپان گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے جاپان میں ہی شادی کی اور وہیں کاروبار شروع کیا اور اب اْن کا شمار جاپان کے متوسط خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں سے ثریا بیگم کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ ثریا بیگم نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اْن کے والد بھی دین دار شخص تھے اس لئے ایک مدرسہ قائم کیا جائے اور اپنے بچوں سے خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کون ہوگا جو یہ نیک فریضہ سرانجام دے گا؟ اِس پر اْنکے دوسرے بیٹے شاہد احمد ضیاء نے یہ بیڑہ اٹھانے کا اعلان کردیا۔ پہلے اْنہوں نے حفظ کیا، عالمِ دین بنے اور 1982 میں سعودی عرب سے واپس پاکستان آگئے اور فیصل آباد میں ایک ’مدرسہ حقانی‘ قائم کیا۔ اِس وقت اْس مدرسہ میں تین سو طلبہ و طالبات زیر ِ تعلیم ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے یہ مدرسہ بنا کسی بیرونی و اندرونی امداد کے چل رہا ہے اور طلبہ و طالبات کو مفت کھانا پینااور رہائش فراہم کررہا ہے۔ مولانا شاہد احمد ضیاء اپنی خاندانی زمینوں سے پیدا ہونیوالی آمدنی سے مدرسہ کا انتظام و انصرام چلا رہے ہیں۔ ثریا بیگم کے بھائی چونکہ سعودی میں گھڑیوں کا کاروبار کررہے تھے اس لئے ثریا بیگم بھی اہل و عیال کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئیں اور یوں اپنے بھائی عبدالعزیز کے ہمراہ کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ عبدالعزیز نے 1983میں سعودی گولڈ کے نام سے سعودی عرب میں سونے کا کاروبار شروع کیا۔ سونے کے کاروبار سے منسلک ہوتے وقت اِس خاندان نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ ایک دن یہ خاندان دنیا میں سونے کی تیسری بڑی فیکٹری کا مالک ہوگا۔ اِس وقت ’سعودی گولڈ‘نامی کمپنی دنیا میں سونے کی تیسری بڑی فیکٹری بن چکی ہے جس میں سارا نظام اٹلی کی طرز پر چل رہا ہے۔ ثریا بیگم جب سعودی عرب گئیں تو اِنہیں کینسر کی تشخیص ہوئی جس کے بعد اْن کا علاج شروع ہوگیا۔اِن کا گھر جنت البقیع کی مشرقی طرف تھا۔ دوران ِ بیماری یہ اکثر اوقات گھر کی بالکنی میں بیٹھ کر جنت البقیع کو دیکھا کرتیں اور اپنے بیٹے احمد مفتی سے پوچھا کرتیں کہ فوت ہونے کے بعد یہ کس جگہ دفن ہونگی۔پھر یہ کچھ جگہوں کی طرف اشارہ کرتیں کہ شاید اِنہیں اْس جگہ دفن ہونا نصیب ہوگا، یا شاید دوسری طرف۔ جب کینسر نے شدت اختیار کی تو ثریا بیگم کے بیٹے احمد مفتی نے ریاض میں قائم’شاہ فیصل ہسپتال‘ میں علاج کی خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا مگر ثریا بیگم نے احمد مفتی کو یہ وجہ بتاتے ہوئے علاج کرانے سے انکار کردیا کہ اگر اْن کی ریاض میں وفات ہوگئی تو وہ جنت البقیع میں دفن ہونے سے محروم رہ جائیں گی۔ اس لئے خاندان نے فیصلہ کیا کہ مدینہ منورہ میں قائم ’شاہ فہد ہسپتال‘ میں ان کا علاج کروایا جائے۔ یہاں اْن کا علاج سوڈان کے ایک ڈاکٹر احمد نے کیا۔ ایک دن انہوں نے ثریا بیگم کے بیٹے احمد مفتی سے کہا کہ چالیس سالہ پریکٹس کے دوران ہر مریض نے جلد سے جلد ٹھیک ہونے کی امید ظاہر کی مگر ثریا بیگم وہ پہلی مریضہ تھیں جو ڈاکٹر سے بڑی بے تابی سے پوچھا کرتیں کہ ’ڈاکٹر صاحب! میرے جلد ازجلد مرنے کے کتنے چانسز ہیں؟ اِس دوران ایک دن احمد مفتی جب اپنی والدہ سے ملنے گئے تو خلاف ِ معمول اْن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ اپنے بیٹے کو دیکھ کر انہوں نے ساتھ رکھا میٹھا نکال کر اپنے بیٹے کو کھلاتے ہوئے کہا ’احمد وہ گھڑی آگئی ہے‘۔ احمد مفتی یہ سن کر پریشان ہوگئے کہ والدہ کو شاید اشارہ ہوگیا ہے اور ساری رات نیند سے محروم کروٹیں بدلتے رہے۔ اگلے دن دس بجے ہسپتال سے فون آگیا کہ ثریا بیگم کا انتقال ہوگیا ہے۔ اْن کی خواہش کے مطابق انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔احمد مفتی اگرچہ یہ سارا واقعہ سنانے کے بعد اپنے آنسوچھپانے لگے مگر راقم الحروف اس قدر شاندار موت پر دل ہی دل میں عش عش کرنے لگا۔