جناب بلاول بھٹو اور محترمہ مریم نواز کی آزادکشمیر کی الیکشن مہم میں شرکت نے مقامی الیکشن کو قومی سطح پر بحث ومباحثے کا عنوان بنادیا ہے۔ان کی پرجوش تقریروں اور تحریک انصاف پر الزامات نے سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھادیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر پر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک مقدمہ عوام کی عدالت میں پیش کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ اگست2019 کو جو کچھ ہوا وہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔پی ٹی آئی کشمیر پر سودے بازی کرچکی ہے اور وہ آزادجموں وکشمیر کو صوبہ بنا کر اس تنازعہ کو ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔ یہ الزامات کشمیریوں کے دل ودماغ پر قہر بن کر ٹوٹے کیونکہ مسئلہ کشمیر کسی جماعت یا شخصیت کا نہیں بلکہ ایک قومی ایشوہے اور قومی سطح پر کشمیریوں کی مدد اور پشت پناہی کا عزم پایاجاتاہے۔ یہ محض برسراقتدار حکومت کا دردسر نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا عہدہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔افسوس! ایک ایسے مسئلہ کو سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے جس پر قومی سطح پر اتفاق رائے پایاجاتاہے۔اس مسئلہ کا تقدس بھی ویسا ہی جیسے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام یا جغرافیائی وحدت کا ہے۔ میرے خیال میں اس مسئلہ پر یوں گلی محلے میں ایک دوسرے لعن تان جائزنہیں۔ قومی سطح کی لیڈرشپ آزادکشمیر جاکر اعلان کرتی ہے کہ حکومت پاکستان نے کشمیر پر سودے بازی کرلی ہے تو اس کے کشمیریوں کے دل ودماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کبھی مریم نواز اوربلاول بھٹو نے اس پر بھی غور کیا ؟ یہ بیانات چھوٹے چھوٹے کلپ بناکرمقبوضہ کشمیر کے طول وعرض میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ایک دوست نے سری نگر سے آگاہ کیا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے کشمیر پر سودے بازی کے ویڈیو کلپ بڑے پیمانے پر سرکار ی اداروں نے تقسیم کرائے ہیں۔ جنگیں یا تحریکیں آج کی دنیا میں توپ وتفنگ سے کم اور نفسیاتی حربوں سے جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔نون لیگ اور پی پی پی کے رہنماؤں نے جو کچھ کہا اس نے تحریک مزاحمت کشمیر کے حامیوں کی پیٹ میں چھرا گھونپا اور بھارتی بیانیہ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ممکن ہے بلاول اور مریم کو اس کا ادراک نہ ہو لیکن یہ ذمہ داری مقامی کشمیری لیڈرشپ کی تھی کہ وہ انہیں باور کراتی کہ آزادکشمیر ایک حساس علاقہ ہے ۔ گفتگو کے آداب یہاں مختلف ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے پانچ اگست کے اقدام کے بعد بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو منجمد کیا۔ دہلی سے ہائی کمشنر واپس بلایا۔ تجارتی تعلقات منطقع کیے۔ دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے دفعہ 370کی بحالی کی شرط رکھی۔ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی تعلقات 1965اور1971کی جنگوں کے بعد بھی اس قدر طویل تعطل کا شکار نہیں ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی اقدامات کو عالمی سطح پر اور بڑی جرأت کے ساتھ چیلنج کیا۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو مغربی رائے عامہ کے سامنے اٹلی کی فاشسٹ اور جرمنی کی نازی پارٹی کے طو رپر متعارف کرایا۔ کشمیر کی بدولت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے گہرے دوستوں کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے۔ دونوں ممالک کے درمیان بھارت کی خواہش پر جو خفیہ رابطے استوار ہوئے وہ بھی اب تعطل کا شکار ہوچکے ہیں کیونکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے اندر مذاکرات کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی طرف توجہ نہ دی۔کشمیر پر کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر جاری مہم سست ضرور پڑی لیکن یہ قصہ ابھی تمام نہیں ہوا۔مغرب کے دارلحکومتوں میں جلدکشمیر کی آواز پھرگونجے گی۔ غیر جانبدار تجزیہ کار بلاول اور مریم نواز کی دورہ آزادکشمیر میں کی جانے والے تقاریر دوبارہ سنیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ لائن آف کنٹرول پر شہید ہونے والے سینکڑوں لوگوں میں سے کسی ایک کے بھی گھر اہل خانہ کو پرسا دینے نہیں گئے۔ ان کی توپوں کا رخ بھارت کی بجائے صرف پی ٹی آئی کی طرف ہے ۔ان دونوں جماعتوں کے لیڈروں کے آزادکشمیر کے گزشتہ دو الیکشن کے ویڈیو کلپ یہ بتانے کے لیے کافی ہیںیہ ہی الزامات وہ ایک دوسرے کے خلاف لگایاکرتے تھے۔بلاول نے 2016میں نوازشریف کو مودی کا یار اور کشمیر کا غدار قراردیاتھا۔ الیکشن مہم میں مریم نواز اور بلاول بھٹو نے یہ نہیں بتایا کہ اگر ان کی جماعت برسراقتدار آتی ہے تو وہ آزادکشمیر کے لوگوں کی جان لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، انفراسڑکچر کے مسائل اور سست انٹر نیٹ سے کیسے چھڑائیں گے؟کوئی منشور انہوں نے نہیں پیش کیا۔لمبے چوڑے بھاشن اور دشنام طرازی کے سوا ان کا دامن خالی ہے۔موچی دروازہ لاہور کی سیاست کو آزادکشمیر میں متعارف کرارہے ہیںحالانکہ وہاں کے شہریوں کے مسائل مختلف ہیں۔ ان پر بات کی جانی چاہیے اور ان کے مقامی مسائل کے حل کے لیے لائحہ عمل دیا جانا چاہیے۔لیکن دونوں راہنما اس جانب نہیں آتے۔ الیکشن کے موسم میں سیاسی جماعتوں کے سب ہی جلسے کامیاب ہوتے ہیں۔ شہری تمام جماعتوں کے جلسوں میں شوق سے شرکت کرتے ہیں۔ مفت سواری دستیاب اور کھانے پینے کا انتظام بھی ہو تو جلسے میلے کی شکل اختیار کرجاتے ہیں لیکن الیکشن کے دن فیصلہ لوگ مستقبل کے منظر نامہ کو سامنے رکھ کرتے ہیں۔ ووٹرز ماضی کے قیدی نہیں بلکہ زمینی حقائق کے سب سے بڑے نباض ہوتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آزادکشمیر میں مسلم لیگ ایک زوال پذیرجماعت ہے۔ جس کی ہوا اکھڑ چکی ہے ۔ آزادکشمیر کے شہری قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نون لیگ کی جارہانہ مہم کا حصہ بننے کے روادار نہیں۔بلاول بھٹو کی پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ عام الیکشن میں پانچ برس حکومت کرنے کے بعد وہ بمشکل قانون ساز اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کرپائی تھی۔ نون لیگ اور پی پی پی وقت سے پہلے ہی الیکشن میںدھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹ کرایک فضا بنا رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ دھاندلی کون کرے گا؟ نون لیگ کی حکومت ہے وہاں۔ الیکشن کمیشن نون لیگ کی حکومت نے اپنی مرضی سے بنایا۔ پولنگ اسٹیشن میں ووٹ شناختی کارڈ دکھائے بنا ڈالا نہیں جاسکتا۔ ووٹروں کی فہرستیں نادرا نے ا مرتب کی ہیں۔ ان کی بنیاد شناختی کارڈ میں لکھا ہوا مستقل پتہ ہے۔مہاجرین کی بارہ نشستوں پر عمومی طورپر دھاندلی کا الزام لگتارہاہے اور لوگ اس پر یقین بھی کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ ان نشستوں کی ووٹر فہرستوں کی کڑی جانچ پڑتال کی گئی۔ہزاروں جعلی ووٹ فہرستوں سے نکال دیے گئے۔ سب جماعتوں کی رضامندی سے ووٹر فہرستیں جاری ہوئی ہیں۔فوج اور رینجر ز کی نگرانی میں الیکشن ہوگا۔ تحریک انصاف کے برعکس نون لیگ اور پی پی پی گزشتہ کئی عشروں سے الیکشن میں حصہ لینے اور جیتنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ قبل ازوقت دھاندلی کا شور مچانے کا مقصد اس کے سوااور کچھ نہیں کہ پچیس جولائی کو وہ اپنی ناکامی کو دھاندلی کے پردے میں چھپا لیں۔تمام جماعتوں کے قائدین سے گزارش ہے کہ وہ الیکشن ضرور لڑیں۔شوق سے ایک دوسرے کی بھد بھی اڑائیں لیکن کشمیر کے ایشو کو ایک دوسرے پر دشنام طرازی کے لیے استعمال نہ کریں۔