کشمیر سے آنے والی اطلاعات نے پاکستان میں اضطراب ہی نہیں بھونچال کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔بھارتی کانگریس ہی نہیں کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے صاحبزادے کرن سنگھ نے بھی بھارت کی مرکزی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے چھیرچھاڑ نہ کرے۔بھارت نواز کشمیری جماعتوں میں بھی سراسیمگی پائی جاتی ہے۔عمرعبداللہ کہتے ہیں کہ انہیں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے باوجود کچھ بتایانہیں جارہا۔ ہنگامی بنیادوں پر کشمیر سے دولاکھ کے لگ بھگ سیاحوں اور بھارتی طلبہ وطالبات کو دہلی روانہ کیاگیا۔ ایئرسروس اور ریلوے نے سیاحوں کے انخلاء میں بھرپور مدد کی۔ سرکاری اہلکاروں کو پابند کیا گیا کہ وہ دفاتر میں موجود رہیں اور موبائل فون بند نہ کریں۔شہروں اور قصبات جہاں پہلے ہی فوج کثیر تعداد میں موجود تھی مزید نفری تعینات کردی گی گئی۔ رواں تیاریاں اس امرکا پتہ دیتی ہیں کہ کشمیر میں کوئی بڑا فوجی یا سیاسی آپریشن ہونے والا ہے۔ امیت شاہ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ کشمیر میںغیرمعمولی چیلنج درپیش ہے جس کا مقابلے کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے بھارت میں پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کرانے والی چاروں شخصیات یعنی وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ امیت شاہ، نیشنل سیکورٹی ایڈوائز اجیت ڈول اور آرمی چیف بپن راوت نہ صرف سخت گیر سیاستدان ہیں بلکہ کشمیرپر ان کا انتہاپسندانہ نقطہ نظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس پس منظر میں باخبر کشمیری حلقوں میں گزشتہ کئی ماہ سے یہ خبر گشت کررہی تھی کہ بھارت اسرائیل کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ہی بار بڑے پیمانہ کا فوجی آپریشن کرکے مزاحمتی قوتوں کی کمر توڑنا چاہتاہے۔اس آپریشن میں عسکری اور سیاسی کارکن کی تمیز ختم کردی جائے گی۔چنانچہ پہلے ہی جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو غیر قانونی قراردیاجاچکاہے۔اسرائیل نے فلسطینیوں کی نہ صرف عدی طاقت کوپارہ پارہ کیا بلکہ انہیں سیاسی اور نفسیاتی طور پر شکست وریخت سے دوچار کیا۔گزشتہ کچھ برسوں سے اسرائیل بھارت کو یہ سبق سیکھا رہا ہے کہ طاقت کا بے محابا استعمال کرواور عالمی برادری کی فکر مت کرو۔ بھارتیہ جنتاپارٹی ہی نہیں بلکہ آرایس ایس گزشتہ ستر برسوں سے ریاست جموں وکشمیر کی علیحدہ شناخت ختم کرنے کے درپے ہے۔ بی جے پی کی حالیہ الیکشن مہم کا بھی ایک بڑا نعرہ کشمیر کی علیحدہ شناخت کا خاتمہ اور خاص طور پر مسلم عددی برتری کا خاتمہ رہا ہے۔ ایک طویل عرصہ سے آرایس ایس تجویز دیتی آرہی ہے کہ جموں ریجن کی علیحدہ ریاست بنائی جائے۔لداخ اور کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرکے گورنر نافذ کردیا جائے ۔اگر سپریم کورٹ 35-Aکو منسوخ کرنے کا فیصلہ سناتاہے تو ان عزائم پر عمل درآمد کی راہ کھل جائے گی۔ افغانستان میںجاری مذاکرات اور طالبان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی امریکی کوششوں اور پاکستان کے مسلسل فروغ پذیر کردار نے بھی بھارتی حکام کو سخت پریشان کررکھا ہے۔ اٹھارہ برسوں کی محنت اور بھاری مالی وسائل صرف کرنے کے باوجود پاکستان نہ صرف افغانستان کے داخلی معاملات میں دوبارہ پوری طرح شریک ہوگیا بلکہ امریکہ، روس اور چین کے اشتراک سے کلیدی کردار ادا کررہاہے۔ توقعات کے برعکس بھارت کے اتحادیوں نے اسے مذاکراتی عمل سے نہ صرف باہر رکھا بلکہ اسے ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ بھارت کو افغانستان کے ہاتھ سے نکلنے کا ہی دکھ نہیں بلکہ اسے معلوم ہے کہ اگر افغانستا ن میں امن بحال ہوگیا تو بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات میں بھی امن بحال ہوجائے گا۔امن کی بحالی اور دہشت گردگروہوں پر قابو پانے سے پاکستان میں استحکام آجائے گا۔ امریکہ کے ساتھ نہ صرف اس کا تناؤ کم ہوچکا ہے بلکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ دوہفتوں میں دو مرتبہ کشمیر پر ثالثی کا ذکر چکے ہیں۔ ٹرمپ کے ان بیانات نے بھارت کوسخت کبیدہ خاطر کیا۔ پاکستان نے دوٹوک انداز میں امریکہ سے کہا کہ وہ کشمیر پر اس کی مدد کرے تو اسلام آباد یکسوئی کے ساتھ افغانستان میں مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے اور طالبان کے ساتھ معاہدہ کرانے میں واشنگٹن کی مدد کرے گا۔ امریکہ بالخصوص صدر ٹرمپ پاکستان کے نقطہ نظر کو اب زیادہ بہتر طریقہ سے سمجھ رہے ہیں کیونکہ وہ افغانستان کے فوجی انخلاء اور طالبان کے ساتھ معاہدہ کرکے امریکی رائے عامہ کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ سابق صدور بالخصوص بارک اوباما سے زیادہ کامیاب اور مشکل تنازعات کے حل میں زیادہ مہارت رکھتے ہیں۔ شمالی کوریا کے ساتھ تناؤ کم کرکے انہوں نے اپنی لیڈرشپ ثابت کی کہ وہ مشکل مسائل حل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صورت حال سے نبردآزماہونے کے لیے بھارت کے پاس بہت محدود آپشن ہیں۔ وہ کنٹرول لائن پر محدودجنگ چھڑ کر اور کشمیر کے اندر حالات بگاڑ کر پاکستان کی توجہ افغانستان سے ہٹانا چاہتاہے۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس ابھی تک پاکستان مخالف کارروئیوں سے باز نہیں آئی۔ بلوچستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کو بھی اسی پس منظر میں دیکھاجاتاہے۔ پاکستان کو ایک بہت ہی خطرناک جال میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلام آباد کو بہت محتاط انداز میں آگے بڑھناہوگا۔ کشمیریوں کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دینا چاہیے لیکن تناؤ اور کشیدگی کے ماحول کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ سمیت دوست ممالک سے تعاون حاصل کیاجائے۔ افغانستان کاتنازعہ حل ہوگیا تو پاکستان کے اکثر مسائل حل ہوجائیں گے اور وہ زیادہ موثر طریقے سے کشمیریوں کی مدد کرسکے گا۔