کشمیر میں محاصرے اورکرفیو کو 20 دن ہونے کو ہیں اس دوران میں اپنے ٹی وی چینلز پر اسی حوالے سے سنجیدہ مباحثے کا انتظار ہی کرتارہا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک منظم حکمت عملی اور طے شدہ منصوبے کے مطابق ایک کے بعد ایک ملک کا دورہ کر کے عالمی رہنمائوں کو نہ صرف شانت کر رہے ہیں بلکہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کی حوصلہ شکنی کے لئے میڈل بھی وصول کر رہے ہیں۔ ممکن ہے وقتی طور پر مودی اپنے مقصد میں کامیاب ہو بھی جائیں مگر یہ صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔24اگست کو 92نیوز کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں معید پیرزادہ کے ساتھ پینل میں سابق سفیر منیر اکرم ‘ سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد‘ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب اور معروف بزنس مین اورتجزیہ کار اکرام سہگل شریک گفتگو تھے۔ پروگرام کے شرکاء نے مسئلہ کا باریک بینی سے جائزہ لیا مگر ان کے الفاظ کو ڈڈ اور زبان ڈپلومیٹک تھی۔ آخر ہمارے تجزیہ کار کیوں صاف شفاف واضح الفاظ میں بات نہیں کرتے اور اشاروں کنایوں میں بات کیوں کرتے ہیں حالانکہ ان کا مطلب صاف ہوتا ہے مگر اس کو اہل دانش ہی سمجھ سکتے ہیں، ایسا کیوں کیا جاتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پروگرام کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جارحانہ پراپیگنڈہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ درست ہے۔ اس سے لوگوں کو کشمیر کے حالات کے بارے میں بتانے میں مدد ملے گی کہ کشمیر میں ہو کیا رہا ہے۔ ان کے نزدیک گزشتہ چند برسوں میں کشمیر کے لئے جو سب سے اچھا ہوا وہ عمران خان کی صورت میں وزیر اعظم کا ہونا ہے لیکن انہوں نے جو بات نہیں کی وہ یہ تھی کہ اب کشمیر میں کیا ہو گا؟ سابق سفیر منیر اکرام نے کہا کہ سب سے اہم ردعمل تو کشمیریوں کا ہو گا ،جب کرفیو ختم ہو گا اور ان کوردعمل ظاہر کرنے کا موقع ملے گا۔ اگر وہ کہتے کہ کشمیر کی طرف سے ایسا ردعمل آنے والا ہے کہ جس کو بھارتی سکیورٹی فورسز کنٹرول نہیں کر سکیں گی اور وہاں کے حالات بے قابو ہو جائیں گے اور کھیل کا پانسہ پلٹ جائے گا تو ان کا مطلب کیا ہو تا۔ مگر انہوں نے یہ وضاحت سے بیان نہیں کیا جو میں کہے دیتا ہوں دراصل ان کے ذہن میں یہ بات تھی جو میں کہے دیتا ہوں۔ ان کے ذہن میں یہ بات تھی جو وہ کہہ نہیں پائے کہ جب بالآخر کشمیریوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت ملے گی اور کرفیو اٹھا لیا جائے گاتو لوگ بغاوت کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کے مقابل کھڑے ہوں گے۔ کیا بھارتی فوج کشمیریوں کو کنٹرول کر سکے گی؟ یقینا وہ سمجھتے ہیں کہ بھارتی فوج کے لئے کشمیریوں کو قابو کرنا ممکن نہ ہو گااور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ کشمیریوں نے اپنی جدوجہد نہایت مشکل اور کٹھن حالات میں جاری رکھی ہے اور اب وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ بھارت کو ان کو گھروں میں قید کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کے لئے دودھ نہیں، مریض دوا سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ سکیورٹی فورسز کے پاس قیدیوں کو کھانے کے لئے دینے کے لئے خوراک نہیں۔ لوگوں کو چلنے پھرنے بولنے کی آزادی نہیں۔ کشمیری اپنے پیاروں سے رابطہ نہیں کر سکتے۔ کشمیر بھارت اور دنیا سے کٹ کر نازی کیمپ بن چکا ہے ۔یہ ظلم و استبداد صرف کشمیری حریت پسندوں سے روا نہیں رکھا جا رہا بلکہ ماضی میں جو دہلی کی پالیسیوں کے حامی رہے ہیں وہ بھی ان کا شکار ہیں۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچتا، نہ وہ سرنڈر کر سکتے ہیں۔ کشمیریوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جوابی حملے کا، لڑنے کا۔ وہ اپنی بقا کی جنگ کس طرح لڑیں گے؟ اصل سوال یہ ہے جس کا جواب دینے سے ہمارے تجزیہ کار کنی کترا رہے ہیں۔ جب کشمیر کے پاس اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تو یقینا وہ اپنی جدوجہد کو اپ گریڈ کریں گے اس کا مطلب ہے کہ اب ان کے ہاتھوں میں پتھر اور لاٹھی کے بجائے بندوق اورگولیاں ہوں گی۔ گلی محلوں میں مزاحمت کرنے والے نوجوان ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔سمگل شدہ پیلٹ گنوں اور بندوقوں کا نشانہ صرف کشمیری ہی نہ ہوں گے بلکہ اب ان سے فوجی بھی مارے جائیں گے۔اب یہ جنگ مسلمہ بغاوت میں بدل جائے گی جسے دنیا مبنی برانصاف تسلیم کرنے پر بھی مجبور ہو گی۔ اس قسم کے حالات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ،امریکیوں سے پوچھ لیجیے خاص طور پر یہ کہ انہوں نے افغانستان میں کیا کچھ دیکھا یا پھر روسیوں سے معلوم کیجیے کہ مجاہدین نے کس طرح جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا تھا ۔مجاہدین تک سٹنگر میزائل کس طرح پہنچے تھے جن سے وہ روس کے ہیلی کاپٹروں کا شکار کیا کرتے تھے۔ یہی وہ لمحات تھے جب افغانستان پن دھارا بن گیا تھا آج وہی لمحہ کشمیریوں کے لئے بھی آن پہنچا ہے کشمیری اسی وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ پورا کشمیر ایک منہ زور پن دھارا کا روپ دھار لے۔ اگر مودی کشمیر میں اپنی نازی پالیسیاں جاری رکھتے ہیں تو پتھر کی جگہ گولی لے لے گی ۔کچھ ہی عرصہ میں ہفتوں مہینوں میں تحریک آزادی کشمیر اپنے عروج پر پہنچ سکتی ہے ۔عروج کشمیر کی تحریک آزادی میں خودکش بمباروں کا شامل ہونا ہو گا جب خودکش جیکٹ کا ہتھیار استعمال ہونا شروع ہو گیا تو پھر بھارتی فوج افواج پاکستان کی حکمت عملی پر غورکرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ کس طرح پاک فوج نے خودکش حملوں کا مقابلہ کیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی فوج کے کمانڈر 70ہزار جانوں کی قیمت چکانے کے لئے تیار ہوں گے جو پاکستان نے چکائی ہے اور بھارتی فوج کتنی دیر تک اس قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اگر بھارتی فوج کچھ مہینوں میں ہزاروں اموات برداشت کر سکتی ہے تو پھر اس کو امریکہ سے سبق سیکھنا ہو گا جو بے پناہ جانی نقصان برداشت کرنے کے بعد افغانستان سے نکلنا پڑ رہا ہے امریکہ اپنے ڈالروں اور بے پناہ عسکری طاقت کے باوجود بھی ہزاروں فوجیوں کی جانیں گنوا چکا ہے اگر بھارت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے تو فطری طور پر اس کا الزام پاکستان پر آئے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تنائو بڑھے گا۔ مگر سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا واقعی پاکستان پر الزام دھرنا درست ہو گا؟ مگر بھارت ایسا ہی کرے گا اور اپنی معیشت اور تجارتی مراسم کو پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کے لئے استعمال کرے گا لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ آج دنیا بدل چکی ہے اور بہت سی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ ہزاروں جانثار اور رضا کار جنگجو موجود ہیں جن کو کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے افغانستان کے بعد یہ جنگجو بے کار پڑے ہیں ان کی اگلی منزل کشمیر ہو گی بھارت کی انسانی حقوق کی پامالیوں کے جواب میں بھارتی فوج کو ان کا سامنا ہو گا ان کے لئے وسائل بھی کوئی مسئلہ نہیں حالیہ ۔۔۔ہیلی کاپٹروں کیذریعے ایسے جنگجوئوں کو افغانستان میں اتارا گیا ہے مڈل ایسٹ داعش سے لوگ وہاں جمع کئے جا رہے ہیں ان میں خودکش بمبار بھی شامل ہیں ایک بھارتی فوج ان کا مقابلہ کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی چند درجن خودکش بمبار کشمیر میں مزاحمت کی آگ بڑھکا سکتے ہیں۔