معزز قارئین!۔ پاکستان کی ہر حکومت، مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بھارتی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کی حمایت میں کئی سال سے ہر سال 5 فروری کو ، کشمیریوں سے یک جہتی کا دِن منا رہی ہے لیکن، بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 A ختم کرنے کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں نے جس انداز میں بغاوت کردی ہے اُس پر فی الحقیقت عالمی ضمیر جاگ اُٹھا ہے اور شاید اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا بھی اور پاکستان تو، ابتداء ہی سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اُن کے حق خودارادیت کے مطابق اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنے کا علمبردار ہے، چنانچہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس نے آج ’’یوم آزادی ‘‘ کو کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر منانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مصورِ پاکستان، علاّمہ اقبالؒ کے خواب کے تصور کی روشنی میں مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کِیا ۔ 1947ء میں مُتعصب اور انتہا پسند ہندوئوں اور سِکھوں کے ہاتھوں ہندوستان کے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے زیادہ مسلمان شہید ہُوئے اور ہزاروں مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی گئی۔ مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں سِکھوں نے 10 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کِیااور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی۔ اب صُورت یہ ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان نے 28 نومبر 2018ء کو (پاکستان کے علاقہ ) نارووال میں کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دِیا ۔ پھر 16 جولائی کو حکومت پاکستان کی جانب سے اعلان کردِیا گیا کہ ’’ اُس نے سارا سال 5 ہزار سِکھ یاتریوں کو روزانہ "Visa Free" گوردوارہ کرتار پور آنے جانے کی اجازت دے دِی ہے‘‘۔ معزز قارئین!۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے دعویدار ذوالفقار علی بھٹو کے ’’روحانی فرزند‘‘ آصف علی زرداری نے 9 ستمبر 2008ء کو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی خود کلامی کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو "Freeze" (منجمد) کردیں ؟‘‘۔ اِس مقصد کے لئے صدر زرداری نے ’’کانگریسی مولویت کی باقیات‘‘ امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا۔ 5 جون 2013ء کو کشمیری نژاد میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو ، اُنہوں نے بھی فضل اُلرحمن صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا لیکن، 26 مئی 2014ء کو جب ، شری مودی نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا تو ، وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف وہاں پہنچ گئے۔ اُنہوں نے وزیراعظم پاکستان کو "Man of the Peace" (مردِ امن) کا خطاب دِیا۔ 25 دسمبر2015ء کو قائداعظمؒ اور اپنی سالگرہ کے موقع پر جاتی عُمرا ء میں وزیراعظم نواز شریف نے اپنی نواسی (مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسم حنا پر مودی اور اُن کے لائو لشکر کو مدعو کرلِیا اور اُنہیں اپنی والدۂ محترمہ شمیم اختر ، بھائی میاں شہباز شریف، بیٹوں ، حسن اور حسین سے ملوایا ۔ والدۂ محترمہ نے دونوں سے کہا کہ ’’ مل کررہو گے تو ، خُوش رہو گے!‘‘ ۔ مودی جی نے بھی سعادت مندی سے کہا کہ ’’ ماتا جی!۔ ہم اکٹھے ہی ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ کیا یہ پاکستانی غریب غُرباء بلکہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی بددُعائوں کا نتیجہ ہے کہ ’’ میاں نواز شریف جیل میں ہیں ، اُن کے خاندان کے کئی افراد منی لانڈرنگ اور مختلف قسم کے مقدمات میں ملوث ہیں؟ ۔ جنابِ آصف زرداری، اُن کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور اور کئی ساتھیوں پر بھی ، اِسی طرح کے مقدمات ہیں ۔ فضل اُلرحمن صاحب کا کیا بنے گا ؟۔ کچھ نہ کچھ تو بنے گا؟۔ کشمیری حریت پسندوں سے یک جہتی کے لئے 12 اگست کو ، مظفر آباد میں عیداُلاضحی کی نماز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے کئی قائدین تو شامل تھے لیکن، جناب آصف زرداری ، میاں نواز شریف اور فضل اُلرحمن صاحب کو یہ سعادت ؔحاصل نہیں ہوسکی؟۔ محبوبہ مفتی اور عُمر عبداللہ وغیرہ معزز قارئین!۔ ہم پاکستانی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ہر وزیراعلیٰ کو ’’ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ ‘‘ کہتے اور لکھتے چلے آ رہے ہیں۔ وزیراعظم مودی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر پر نئے سرے سے ’’غاصبانہ قبضہ ‘‘ کِیا تو، تین سابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عُمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد ؔسراپا احتجاج بن گئے اور اُنہوں نے کہا کہ ’’ ہم پاکستان پر بھارت کو ترجیح دینے میں غلط تھے ۔ اب بھارت سے الحاق کا فیصلہ بھی کالعدم ہوگیا۔ مودی کا فیصلہ کشمیریوں کے بھروسے کے ساتھ دھوکہ ہے۔ آج بھارت نے جمہوریت کا خون کردِیا ہے ‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید اور عُمر عبداللہ کے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور دادا شیخ عبداللہ بھی کئی بار مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ رہے ہیں ۔ شیخ عبداللہ تو ’’ شیرِ کشمیر ‘‘بھی کہلاتے تھے؟‘‘۔ کانگریسی مولویوں کی باقیات؟ معزز قارئین!۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کی تنظیم ’’جمعیت عُلمائے ہند ‘‘ کے اکثر ارکان نے ہندوئوں کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی کی سرپرستی میں ، ہندوئوں کی متعصب جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ کا ساتھ دِیا تھااور وہ کانگریسی مولوی کہلاتے تھے ۔ ابواُلکلام آزاد ، دیو بندی عالم ِ دین حسین احمد مدنی اور اِسی طرح کے لوگوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی اور کئی مولویوں نے تو قائداعظم ؒ کے خلاف کُفر کے فتوے بھی دئیے ۔ اُن کی باقیات میں ’’طالبان کا باپ ‘‘ کہلانے والے امیر جمعیت عُلماء اسلام (سمیع اُلحق گروپ) کو تو، 2 نومبر 2018ء کو قتل کِیا جا چکا ہے لیکن، ماشاء اللہ فضل اُلرحمن صاحب حیات ؔہیں ، جن کے والد صاحب مفتی محمود مرحوم نے قیام پاکستان کے بعد کہا تھا کہ ’ ’ خُدا کا شکر ہے کہ ’’ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ کیا محبوبہ مفتی ، عُمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد کے تازہ ترین بیانات کے بعد فضل اُلرحمن صاحب بھی اِس طرح کا اعلان کریں گے کہ ’’ ہمارے بزرگوں نے بھی تحریک پاکستان کی مخالفت کر کے غلطی کی تھی؟‘‘ اور ہاں!۔6 اگست کو وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے ہندوئوں کی متعصب تنظیم ’’ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (RSS) سے شکوہ کِیا کہ ’’اُنہوں نے ’’مہاتما گاندھی ‘‘ کو قتل کرایا‘‘۔ بھولے وزیراعظم !۔ قائداعظم ؒ تو، گاندھی جی کو ، ’’مسٹر گاندھی ‘‘کہتے تھے اور گاندھی جی ۔ قائداعظمؒ کو ۔ ’’مسٹر جناح ‘‘۔ ہندی کا لفظ ۔’’ مہاتما ‘‘ کا مطلب ہے ’’نہایت مقدس ، نیک ولی ٔ کامل ، بزرگ ، فیاض ، سخی اور بلند حوصلہ ‘‘۔ کپل وستو کے شہزادہ سدھارتھ گوتم بدھ پر ’’مہاتما‘‘ کا خطاب سجتا تھا /ہے۔ مناسب یہی ہے کہ گجرات کی بنیا قوم کے مسٹر گاندھی کو ’’ مسٹر گاندھی ‘‘ ہی کہا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ ’’پاکستان میں آج تک جتنی بار بھی عام انتخابات ہوئے ، عوام نے تحریک پاکستان کے مخالفین خاص طور پر ’’ کانگریسی مولویوں کی باقیات‘‘ کو کبھی بھاری مینڈیٹ نہیں دِیا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ محبوبہ مفتی ، عُمر عبداللہ اور غلام نبی آزاد کے نقشے قدم پر چل کر ’’کانگریسی مولویوں کی باقیات‘‘ بھی اپنا قبلہ درست کرلے؟۔ پاکستانیوں سے مُؤاخات؟ معزز قارئین!۔ وزیراعظم عمران خان سے پہلے بھی کئی حکمرانوں نے پاکستان کو ’’ریاست ِ مدینہ جدید ‘‘ بنانے کا وعدہ/اعلان کِیا تو، مَیں نے اپنے کالموں میں لکھا کہ ’’ پیغمبر اِنقلابؐ نے ریاست ِ مدینہ میں انصارِ مدینہ اور مہاجرین مکّہ کے درمیان ’’مواخات ‘‘ ( بھائی چارے) کا رشتہ قائم کِیا تھا ۔ جِس کی رُو سے انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی جائیداد / دولت مہاجرین مکّہ میں تقسیم کردِی تھی۔ پاکستان کے مفلوک اُلحال لوگ تو کسی ایسے لیڈرکے منتظر ہیںجو مِنت سماجت یا طاقت سے اشرافیہ سے اُس کی آدھی جائیداد / دولت اُن کے نام کرا دے؟ ۔کشمیری حریت پسندوں سے یک جہتی جاری رکھیں لیکن،پاکستانی عوام کے ساتھ مُؤاخات کا رشتہ ضرور قائم کریں۔حضرت داغ ؔدہلوی نے نہ جانے کسے چڑانے کے لئے کہا تھا کہ … تُم کو لیلیٰ سے ہے جو یک جہتی ! میرا مجنوں سے بھائی چارا ہے!