ایک سو بارہ دن گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی صورت حال میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔ بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ کرفیو اٹھایاجاچکا ہے۔ باوجود اس کے فوجی محاصرے کی سی کیفیت میں کوئی کمی نہیںآئی۔اگرچہ شہریوں کو گھروں سے نکلنے سے روکا نہیں جاتا لیکن ہر گلی او رمحلے کی نکڑ پر سپاہیوں کی کھڑی ایک ٹولی کرفیو لگانے یا راہگیروں کو زدکوب کرنے کے لیے ہر وقت حکم کی منتظر رہتی ہے۔ انٹرنیٹ تو دور کی بات ہے‘ ایس ایم ایس کرنے کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ سیاسی اور سماجی لیڈر ابھی تک جیلوں میں ہیں اور بعض کی صحت بہت خراب ہے۔ جناب یاسین ملک کے خلاف گڑھے مردے اکھاڑے جارہے ہیں۔ انہیں پھانسی پر لٹکانے کے منصوبے میڈیا کے ذریعے عام کیے جاتے ہیں تاکہ سیاسی کارکنوں کو خوف زدہ کیا جاسکے۔ جماعت اسلامی کے لگ بھگ تمام لیڈر اور سرگرم کارکنوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔نیشنل کانفرنس اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور کارکن بھی عتاب کا شکار ہیں۔ جبر وتشدد کا ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود سخت جاں کشمیریوں کو ڈرایا جاسکا او ر نہ ان کے جذبہ مزاحمت کو سرد۔ عالمی سطح پر کشمیر کی بازگشت نہ صرف مسلسل گونج رہی ہے بلکہ اس میں ہر روز شدت آتی جارہی ہے۔ 22اکتوبر کو امریکی کانگریس کی انسانی حقوق کمیٹی میں کشمیر پر ہونے والی بحث بارش کا پہلا قطرہ تھی۔توقع کے برعکس بحث کے دوران ہونے والی گفتگو نے بھارتی موقف کو زیروزبر کیا۔بھارتی حکومت کا یہ تجزیہ بھی خاک میں رل گیا کہ چونکہ وہ امریکہ کا اسٹرٹیجک شراکت دار اور سوا بلین لوگوں کی مارکیٹ ہے لہٰذا امریکی ایوانوں میں اس کے خلاف کوئی قابل ذکر آواز نہیںاٹھ سکتی۔کانگریس کے سامنے پیش ہونے والے چار گواہوں میںتین نے بھارتی موقف کی دھجیاں اڑائیں۔ خاص طور پر دوخواتین پروفیسروں نے کانگریس کو بتایا کہ کس طرح رفتہ رفتہ حق خودارادیت کے مطالبے کو نظرانداز کیا گیا اور اسے مکمل طور پرسیاسی مباحثے سے غائب کردیاگیا۔ نومبر کے دوسرے ہفتے میں کانگریس کے رکن ٹام لینٹوز کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی ’بھارت کے تاریخی اور قومی تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ‘ لیا ۔انگلش اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایوان نمائندگان کی پہلی بھارت نژاد رکن پرمیلا جیاپال نے کشمیرمیں بھارتی حکومت کے اقدامات پر شدید تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ کانگریس ایک قرارداد کے ذریعے کشمیر کے بارے میں پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے بھارت کو واضح پیغام دے۔ شیلا جیکسن لی ، ڈیوڈ ٹرون اور ڈیوڈ سیسیلین نے بھی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد کے بھارتی حکومت کے اقدامات پر کڑی تنقید کی۔ سینیٹر کرس وین ہولین نے سینیٹ کے بل میں کی جانے والی ترمیم کی حمایت کی جس میں مقبوضہ کشمیر پر عائد پابندیوں کاذکر کیا گیا تھا۔امریکہ میں کئی برسوں سے مقیم صحافی انور اقبال کے مطابق مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم کو آشکار کرنے کے لیے کانگریس کمیشن کی سماعت اتنی ہی اہم ہے جتنی کشمیر کے معاملے پر ’بھارت کو واضح پیغام دینے‘ کی قرارداد کے لیے رکنِ کانگریس پرمیلا جے پال کی کوشش۔ چند دن قبل امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی برائے ایشیا کے سربراہ بریڈ شیرمین نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھے گئے خط میں زور دیا کہ بھارتی حکومت کو امریکی سفارت کاروں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران کشمیر پر اپنی تشویش کا برملا اظہار کیا۔ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتر محمد نے کہا: بھارت نے کشمیر پر جارحیت کی اور قبضہ کرلیا۔ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلہ کا حل تلاش کرے۔ ترک صدرطیب اردوان اور حکومت کے موقف سے ہم سب واقف ہیں ۔ہفتے رفتہ میں ترکی کے دارلحکومت انقراہ میں کشمیر پر ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں کہاگیا کہ کشمیر بھارت کا داخلی مسئلہ نہیں۔ ناروے میں حالیہ قیام کے دوران سرگرم کشمیری رہنما سردار علی شاہ نواز خان نے متعدد اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چلنے والی فلمیں بطور مثال کے دکھائیں کہ کس طرح یورپ میں کشمیر پر لگ بھگ ہر ہفتے مضامین اورفلمیں دکھائی جاتی ہیں جو کشمیریوں کے مصائب اور مسئلہ کے تاریخی پس منظر کوا جاگر کرتی ہیں لیکن بھارتی طرزعمل اور کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر کڑی نکتہ چینی بھی۔گزشتہ دنوں لندن میں کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے چند درجن افراد کو ایک فیچر فلم کی سکرینگ کے لیے مدعو کیا گیا۔ یہ طالب علم بھی وہاں موجود تھا۔ No Fathers in Kashmir نامی یہ فلم ایک بھارتی فلم ساز ایشون کمار نے بنائی۔ فلم دیکھ کر پتھر دل بھی پگھل جاتاہے ۔ کشمیریوں پر جو قیامت گزری یہ فلم اس کے صرف ایک پہلو کی عکاسی کرتی ہے ۔ دیکھ کر دل دکھ سے بھر آتاہے۔ حقیقت یہ کہ بھارت کے حالیہ اقدامات نے کشمیر کو عالمی سطح پر دوبارہ ایک حل طلب اور خطرناک مسئلہ کے طور پر پیش کیا۔کشمیری تارکین وطن نے خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو ایک نئے زاویے سے اجاگر کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے ذاتی حیثیت میں پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ رابطے کیے انہیں جاندار موقف اختیار کرنے پرآمادہ کیا۔خاص طورپر امریکہ میں مقیم کشمیریوں نے بہت سرگرم کردار اداکیا۔ رفتہ رفتہ امریکی اداروں میں کشمیر کے حوالے سے پائی جانے والی سردمہری ٹوٹ رہی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی سینئر قیادت نے کشمیر پر ایک معقول موقف اختیار کیا ہے۔ افسوس! حالیہ چند ہفتوں میں پاکستان میں کشمیر پر توجہ کم ہوئی۔ میڈیا نے مولانا فضل الرحمان کے ’’آزادی مارچ‘‘ کو ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔بعدازاں نوازشریف کی بیماری اور ان کے بیرون ملک علاج نے میڈیا کی ساری توجہ اپنی جانب مبذول کرائے رکھی۔ داخلی سیاست کی مجبوریاں اور ضرورتوں نے حکومت کو بھی بری طرح جکڑے رکھا۔کشمیر کو جس توجہ اور مسلسل سفارتی کوششوں کی ضرورت تھی وہ نہ حاصل رہی ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان کے اندر کشمیر پر جاری آگہی مہم میں کمی نہ آنے پائے اور یہ مسئلہ سیاسی بیانیہ کا اہم حصہ ہو۔ وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان گزشتہ ہفتے جمعرات کی رات ٹیلی فونک رابطہ ہوا ۔دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان سے مغویوں کی رہائی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کو کشمیر کی موجودہ صورت حال سے بھی آگاہ کیا کہ ’80 لاکھ کشمیری 100 سے زائد روز گزرنے کے باوجود محاصرے میں ہیں۔‘ محض وزیراعظم عمران خان کی کوششیں کافی نہیں۔ حزب اختلاف کے اہم رہنمائوں کو بھی اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ورنہ کل کشمیر ی کہیں گے کہ ہمیں غیروں کے سلوک کا شکوہ نہیں ۔ دوستوں کی بے رخی اور لاتعلقی نے زیادہ دکھی اور رنجیدہ کیا۔ ٭٭٭٭٭