کشمیر کا معاملہ اس طرح گرم ہوا ہے کہ بی جے پی کو فی الحال تو لینے کے دینے پڑگئے ہیں۔ایک طرف تقریبا ایک ماہ کے مسلسل کرفیو ۔پکڑ دھکڑ ،سیاسی گرفتاریوں اور بہیمانہ تشدد کے باوجود حکومت اس خوف میں گرفتار ہے کہ دنیا کی نظر سے کشمیر کی یہ نسل کشی کیسے چھپائے۔اور دوسری طرف یہ خوف کہ کرفیو اٹھے گا تو پھر جو تماشا لگے گا اس پر کیسے قابو پائے۔عمران خان نے بھی یہ کہا ہے،ہندوستان میں بھی یہ شور اٹھ رہا ہے اور غیر ملکی مبصرین بھی یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان نے کشمیر میں تاریخی غلطی کردی ہے اور ایک بار پھر یہ معاملہ زندہ اور گرم ہوگیا ہے۔اس ایک غلطی کو درست ثابت کرنے کے لیے مودی مزید غلطیاں کرے گا۔جبر و تشدد اور بڑھے گا،بچے یتیم ہوں گے،سہاگ اجڑیں گے اور مائیں مزید بیٹوں کی قبر پر مٹی ڈالیں گی۔ لیکن لینے کے دینے پڑنے کا محاورہ صرف کشمیر پر صادق نہیں آرہا۔ایک اور مسئلہ آسام میں این آر سیNRC( National register of citizens)کی شکل میں کھڑا ہوگیا ہے اور بی جے پی جس این آر سی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتی تھی، اس کی زد میں وہ ہندو بھی آگئے ہیں جو جدی پشتی ہندوستانی ہیں اور بے جی پی کا بڑا ووٹ بنک ہیں۔آخری فہرست کے مطابق 19لاکھ افراد آسام میں وہ ہیں جن کے پاس شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔دوسرے الفاظ میں انجام کار یہ لوگ وہ ہوں گے جن کا کوئی وطن نہیں ہوگا اور جن کے کوئی حقوق نہیں ہوں گے۔ یہ فہرست مکمل سامنے نہیں آئی ہے اور ابھی حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کہ ان میں مسلمان کتنے ہیں۔بعض کا خیال ہے کہ زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔لیکن جس طرح بی جے پی نے پینترا بدلا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ ان 19لاکھ میں13لاکھ ہندو ہیں اور چھ لاکھ مسلمان۔چنانچہ بی جے پی کے رہنماؤں کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں اور اب وہ رخ بدل کر فہرست سازی کے اس طریقہ کار پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔محاورہ تو یہ بھی ہے کہ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں جا پڑتا ہے۔یہ محاورہ بھی کشمیر اور آسام دونوں جگہ ہندو ذہنیت پر صادق آتا ہے۔جو بنیادی طور پر مسلم دشمن ذہنیت ہے۔اب یہ مسئلہ اس لیے بھی گھمبیر ہے کہ ٓاسام کے بعد دیگر صوبوں میں بھی این آر سی کا ڈنڈا پھیرا جانا تھاجو اب من و عن تسلیم کرنے سے بی جے پی کو مزید اور شدید نقصان کا خطرہ ہے۔عالمی سطح پر بھی یہ نا منصفانہ فہرست سازی اس طرح ابھر کر آئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلپو گرینڈی Filippo) Grandi)نے کہا ہے کہ این آر سی سے لاکھوں لوگ بے ملک اور بے وطن ہوکر رہ جائیں گے۔ لیکن یہ این آر سی ہے کیا؟ اس فہرست سازی کی ضرورت کیوں پیش آئی اور آسام ہی میں سب سے پہلے یہ تجربہ کیوں کیا گیا؟اس کو سمجھنے کے لیے جغرافیے اور تاریخ دونوں کا سفر کرنا پڑے گا۔ آسام ،شمال مشرقی ہندوستان کی ،دریائے برہم پترا اور دریائے باراک کی وادیوں میں لگ بھگ 78ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ایک زرخیز ریاست ہے جس کی سرحدیں شمال میں بھوٹان اور اروناچل پردیش،مشرق میں ناگا لینڈ اور منی پور،جنوب میں میگھالیہ، تری پورہ، میزو رام اور بنگلہ دیش اور مغرب میں مغربی بنگال سے جڑی ہوئی ہیں۔مغل بادشاہ یہاں قبضہ جمانے میں ہمیشہ ناکام رہے۔اورنگ زیب کے سپہ سالارمیر جملہ نے 1662/63میں آسام کا دارالحکومت گڑھ گاؤں فتح کیا لیکن یہ تسلط زیادہ دیر نہ رہ سکا۔پھر انگریز نے چائے کی تاجر کے روپ میںچائے کے باغات اور زرخیز زمین پر بڑی چالاکی سے قبضہ کیا۔ایک زمانے میں آسام مغربی بنگال کا حصہ سمجھا جاتا تھا لیکن پھر انگریز نے اسے 1906میں مشرقی بنگال سے جوڑ دیا۔شروع ہی سے یعنی چائے کی تجارت کے فروغ کے فورا بعد سے آسامی، برمی، چینی اور بنگالی قوموں میں آویزش رہی اور قوم پرست عناصر اس کی شناخت اور آزادی کے لیے سرگرم رہے۔1947میں تقسیم ہند کے وقت سلہٹ جو آسام کا ایک حصہ تھا ،ریفرنڈم کے نتیجے میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کا حصہ بن گیا۔یاد رہے یہ وہی ریفرنڈم ہے جس کی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم کی درخواست پر سرحد ریفرنڈم کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی و مفتی محمد شفیع صاحبان اور سلہٹ ریفرنڈم کے لیے مولانا ظفر احمد عثمانی نے کامیاب دورے کیے تھے اور ریفرنڈم میں کامیابی دلوائی تھی۔ کم و بیش ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والی یہ ریاست115 مختلف نسلوںاور کم ازکم 44مختلف زبانیں بولنے والے گروہوں پر مشتمل ہے۔ ہندو یہاں قریب قریب 62 فیصد اور مسلمان تقریبا35فیصدہیں۔ باقی چھوٹی اقلیتیں ہیں۔ 48فیصد لوگ آسامی 28فیصد بنگالی اور باقی دیگر زبانیں بولتے ہیں۔ آسامی باشندوں کے مطابق 1826کے بعد ہی سے مسلم بنگال سے جو بعد میں مشرقی پاکستان کہلایا،بنگالیوں کی آسام میں آباد کاری کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔اور اس سے آبادی کے تناسب میں فرق پڑنا شروع ہوگیا تھا۔تقسیم کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔2012 کے ایک وائٹ پیپر کے مطابق تقسیم کے بعدمختلف وجوہات اور نسلی فسادات کے باعث مسلم بنگال سے آسام میں آباد ہونے والوں کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔بنگلہ دیش کے قیام کے دوران اس تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ تقسیم کے فورا بعد ہی آسام میں نسلی اور لسانی گروہوں میں لڑائیاں شروع ہوگئی تھیں اور کئی ایک آزادی کی تحریکیں زور پکڑ گئی تھیں۔ تھیں۔1961میں آسامی زبان کو لازمی تعلیم کا حصہ بنایا گیا لیکن بنگالیوں کی بھرپور مخالفت پر اس اقدام کو واپس لینا پڑا ۔لیکن سب سے بڑا ظلم آسامی باشندوں پر تقسیم کے بعد بھارتی حکومت نے 1970میں کیا جب اس نے آسام کے ٹکڑے کرکے کئی الگ الگ ریاستیں بنا دیں۔ناگا لینڈ،میگھیالہ ، میزو رام وغیرہ اسی وقت وجود میں آئے ۔1980میں آسام میں طالب علموں کی تنظیم آل آسام سٹوڈنٹس یونینAASU) (نے ایک خونریز احتجاجی مہم شروع کی جس میں بہت خونریزی ہوئی اور جو 6سال جاری رہی ۔مطالبہ یہ تھاکہ بنگلہ دیش سے آنے والے غیر ملکی مہاجرین اور آباد کاروں کو آسام سے نکالا جائے۔بالآخر مرکزی حکومت اور تحریک رہنماؤں کے درمیان 1985 میں(Assam Accord) معاہدہ ہوا جس پر وزیر اعظم راجیو گاندھی نے دستخط کیے ۔معاہدے کے تحت مرکزی حکومت کو غیر ملکیوں کو نکالنے اور اصل آسامی باشندوں کی شناخت کرنے کے اقدامات کرنے تھے۔لیکن یہ معاہدہ بے عمل اور محض کاغذی کارروائی تک محدود رہا جس کے باعث مقامی باشندوں میں بے اطمینانی اور بڑھ گئی ۔ 1970کے بعد سے علیحدگی پسند گروہوں کی سرگرمی میں تیزی سے اضافہ ہوا جن میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام (ULFA) اور نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ آف بودولینڈ(NDFB)جیسے گروہ بھی ہیں ۔علیحدگی پسند تحریکیں اس حد تک زور پکڑ گئیں کہ 1990میںبھارتی حکومت کو فوج بلانی پڑی اور اس کے بعد سے اس کی علیحدگی پسندوں سے کم اور زیادہ شدت کی جھڑپیں اب تک جاری ہیں۔ این آر سی(National register of Citizen)بنیادی طور پر ریاست آسام میں بننے والی ایک فہرست تھی جس کے تحت ہندوستانی شہریوں کو غیر قانونی مہاجرین، دیگر پڑوسی ملکوں سے آنے والے قابضین اور آباد کاروں سے الگ پہچانا جانا تھا تاکہ اصل آسامی باشندوں کی تعداد، تہذیب، تمدن، ثقافت کی حفاظت کی جاسکے اور آبادیاتی(Demographic)تبدیلی کو روکا جاسکے۔بنگالی مسلمانوں سے آسامیوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ وہ کم معاوضے پر شدید محنت کے کم درجے کا کام بھی آسامیوں کی نسبت آسانی سے کرلیتے ہیں۔یہ دکھ جو آسام کی ہندو آبادی کو روگ کی طرح لگا ہوا ہے تمام مسائل اور پھر این آر سی کی جڑ ہے۔ (جاری ہے)