بھارت کی طرف سے کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد یہ ساری دنیا، جسے عالمی برادری کے پرفریب نام سے یاد کیا جاتا ہے، کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا میں ایک اور فلسطین نہ بننے دیتی۔ایسا لیکن نہیں ہوا۔ ایسا ہوگا بھی نہیں۔دنیا کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے۔مقبوضہ وادی عملاً ایک مفتوحہ علاقہ بن چکی ہے۔ کرفیو اور ابلاغ کے تمام ذرائع بشمول انٹرنیٹ ، بند ہونے کے باعث کسی کو علم نہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ میں نے کوشش کی کہ وادی میں کسی سے رابطہ ہوسکے لیکن ممکن نہیں ہوا۔ دنیا میں کشمیر وہ واحد متنازعہ علاقہ ہے جہاں قابض مسلح افواج ریکارڈ تعداد تعینات ہیں۔یہ صورتحال کئی دہائیوں سے ہے ۔ تقریبا ساڑھے چھ لاکھ بھارتی فوجی وادی میں طویل عرصے سے تعینات ہیں۔ان میں بھارتی ائیر فورس، سرحدی پولیس اور کئی طرح کی سکیورٹی فورسز شامل ہیں۔بھارت کے لوک سبھامیں کشمیر کی تقسیم اور اس کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کے آرٹیکل کی منسوخی کے اقدام کے بعد مذید پینتیس ہزار تازہ دم فوج وادی میں بھیج دی گئی ہے۔اس کے بعد وادی کو باہر جانے والی ہر خبر کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ وادی کے اندر کیا ہورہا ہے،اس پہ عالمی مبصروں کو تشویش ہونی چاہئے تھی اور سلامتی کونسل کو خود ہنگامی اجلاس بلا کر بھارت سے جواب طلبی کرنی چاہیے تھی کہ آخر مقبوضہ وادی میں ایسا کیا ہونے جارہا تھا جو اس اضافی نفری کی تعیناتی کی ضرورت پڑ گئی۔اس سے بھی ضروری یہ تھا کہ وادی کے اندر کیا ہورہا ہے اس سے عالمی مبصرین کیوں بے خبر ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں عالمی مبصرین کی آزادانہ آمد و رفت جاری ہے اور وہ انسانی حقوق کی صورتحال پہ اقوام متحدہ کو رپورٹس بھیجتے رہتے ہیں۔ کیا یہی قابل اطمینان صورت حال بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی ہے جہاں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہورہی ہے اور عالمی ضمیر کے کان پہ جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ یہی صورتحال برما میں رہی جہاں کئی ماہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا،عصمتیں پامال ہوتی رہیں لیکن کیا آپ نے عالمی ضمیر نامی کسی چڑیا کو چہچہاتے دیکھا؟ یہی واردات فلپائن میں ڈالی گئی اور فلپائن کا قصائی پورے اطمینان سے مسلمانوں کی نسل کشی کرتا رہا۔بوسنیا کے وزیر اعظم حارث سلاجیک نے سرخ چہرے اور نم آنکھوں کے ساتھ اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ لوگ اس دن کا انتظار کررہے ہیں جب ہمارا نام و نشان بھی مٹ جائے گا؟عزت بیگوویچ نے کہا کہ کیا مسلم دنیا نے یورپ کے دنبے کو موٹا کرکے ذبح ہونے کے لئے چھوڑ دیا ہے؟بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا اور اقوام متحدہ کا امن مشن تما شہ دیکھتا رہا۔ اس کے انسانی حقوق کمیشن نے باقاعدہ اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی بوسنیا سے متعلق رپورٹ سقوط سربرینیکا اور امن مشن کی ناکامی ویب سائٹ پہ دیکھی جاسکتی ہے۔ امریکہ اور عالمی ضمیر نے اس وقت مداخلت کی جب انہیں مسلم نسل کشی کا تسلی بخش اطمینان ہوگیا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی تازہ ترین واردات سادہ ترین الفاظ میں وادی پہ لشکر کشی ہے۔ آپ قانونی پیچیدگیوں اور تاریخ کی بھول بھلیوں میں جانے کا شوق رکھتے ہیں تو ضرور ایسا کیجیے۔ اس طرح آپ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں پہلے سے موجود ناکارہ اور بے کار محض قراردادوں کی جگالی کرکے دنیا پہ اپنے اصولی موقف کا اعادہ کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق پڑتا ہے تو آپ تاریخ سے ناواقف ہیں۔ وہ تاریخ جس میں افغانستان پہ چڑھائی کرنے کے لئے نائن الیون ، عراق پہ چڑھائی کرنے کے لئے بڑے پیمانے پہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی اور لیبیا پہ چڑھائی کرنے کے لئے پہ کیمیائی ہتھیاروں کا الزام کافی ہے۔ جی بھر کے تباہی مچانے کے بعد ٹونی بلیئر کو کندھے اچکا کر یہی تو کہنا پڑتا ہے کہ ہم سے غلطی ہوگئی۔ ہماری اطلاعات غلط تھیں۔یہ سب بھگتنے کے بعد بھی ہمیں یہ کیوں نہیں سمجھ آرہی کہ مقبوضہ کشمیر پہ بھارت نے ویسا ہی حملہ کیا ہے جیسا کہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان، لیبیا اور عراق پہ کیا تھا۔ان حالات میں ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم ہر عالمی فورم پہ دستک دیں۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اس دستک کو سننے والا کون ہے؟چین کا مسئلہ کشمیر نہیں لداخ ہے۔ اس پہ وہ بولا بھی ہے اور ضرورت پڑی تو ایکشن بھی لے گا۔ صدر ٹرمپ نے جب ثالثی کی پیشکش کی تو اس سے پہلے ہی آرٹیکل 35 اے اور 370 کی منسوخی کا پلان ان تک پہنچا دیا گیا تھا۔ ثالثی کی پیشکش کشمیر کی اس صورتحال سے متعلق تھی جو بھارت کی اس حرکت کے بعد پیدا ہونی تھی۔ یہ سیدھی سادی جنگ ہے جو بھارت نے چھیڑ دی ہے۔اسے ٹالنا تو دور کی بات پہلے تسلیم کرنا ہوگاکہ یہ کھلی جنگ ہے۔فلسطین میں اسرائیل نے آؓباد کاریاں بڑھاتے بڑھاتے عملی طور پہ فلسطین کو ایک پٹی تک محدود کردیا جہاں انسان نہیں ایسے نفوس رہتے ہیں جن کے لئے زندگی یہودیوں کے ہٹلر کے زمانے کے غیتوز سے بھی بدتر ہے۔ عالمی ضمیر یونیسکو نے جب اس پہ احتجاجی قرارداد پاس کی اور کہا کہ اسرائیل فلسطینی آبادیوں پہ اپنا قبضہ پھیلاتا جارہا ہے جو تاریخی طور پہ غلط ہے تو یونیسکو میں اسرائیل کی سفیر نے کہا کہ اب آپ ہمیں تاریخ پڑھائیں گے؟ہم جو پیغمبروں کی اولاد ہیں۔ہم جو ارض موعود کے وارث ہیں ؟اب یونیسکو جیسے کل کے بچے ہمیں بتائیں گے کہ ہماری سرحدیں کہاں تک ہونی چاہییں؟۔ اس سے ساتھ ہی اسرائیل ہی نہیں امریکہ نے بھی یونیسکو کی رکنیت سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس کے صرف ایک سال بعد عالمی ضمیر کی ناک میں دھونی دیتے ہوئے امریکہ نے صدی کی سب سے بڑی ڈیل یعنی فلسطین کی تقسیم کا باضابطہ اعلان کردیا تھا۔ایسے میں باقاعدہ طور پہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں کس عالمی فورم سے توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ہاں عمران خان کی بصیرت کو داد دینی پڑتی ہے کہ وہ اس آگ کو ساری دنیا میں پھیلنے کے خطرے کی نشان دہی کررہے ہیں۔ساتھ ہی وہ مودی کو بار بار ہٹلر سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور یہودیوں سے زیادہ ہٹلر کو کون جانتا ہے۔بھارت کو نکیل ڈالنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔عالمی ضمیر کا اطمینان غارت ہونا چاہئے۔