کشمیر کی ابتر ہوتی صورت حال کے بارے میں بھارتی حکومت کے سیکورٹی حلقوں میں بھی اب یہ تاثر ہے کہ فوجی کارروائیوں سے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے میں کامیابی تو ملتی ہے، مگر اس سے عسکریت پسندی ختم نہیں کی جاسکتی ہے۔ پچھلے ہفتے نئی دہلی میں فوج کی ایک اہم فوجی تھنک ٹینک نے جب صورت حال کے بارے میں چیتھم ہائوس رول کے تحت ایک مذاکرے کا اہتمام کیا، تو کشمیر میں ڈیوٹیاں دے چکے فوجی کمانڈروں کا خیا ل تھا کہ صورت حال کو نارمل کرنے کی کنجی صرف بھارت کی سیاسی قیادت کے پاس ہے، جو بدقسمتی سے ابھی تک صرف فوجی حل پر تکیہ کئے ہوئے ہے۔ ایک اعلیٰ سرونگ آفیسر نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی یونٹ نے ایک آپریشن کرکے 13عسکریت پسندوں کو ہلاک کرکے اس علاقے کو کلیئر کرنے کا دعویٰ کیا۔ مگر چند روز ہی میں اسی علاقے میں 32 نوخیز اسکول و کالج میں پڑھنے والے نوجوانوں نے گھر بار چھوڑ کر عسکریت کے پرخار راستے کا انتخاب کرلیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسطرح کی صورت حال میں جہاں نوجوان نتائج کی پروا کئے بغیر زندگی داوٗ پر لگانے پر تیار ہوں، وہاں ایک قدم تھوڑا پیچھے ہٹ کر حالات و واقعات کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت شاید ہی دہلی میں کسی کے پاس یہ سوچنے کیلئے وقت ہے کہ آخر یہ نوجوان اپنی زندگیوں سے کیوں کھیل رہے ہیں، جبکہ عالمی تزویراتی صورت حا ل میں ان کی منزل یعنی آزادی بھی شاید ناقابل حصول ہے۔ ان کو ترغیب اور حوصلہ کہاں سے آتا ہے؟دیگر کمانڈروں کا کہنا تھا کہ فوج سختی کے ساتھ عسکریت کو کچل کر حالات بہتر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، مگر کچھ عرصہ بعد پھر وہی کہانی اور وہی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جولائی 2016ء میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد جو عوامی بغاوت پھوٹ پڑی ، اس کا لاوا کئی برسوں سے پک رہا تھا۔ ایک او ر اعتراف یہ سامنے آیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جو ماحول تیار کیا گیا ہے اس کا اثر کشمیر کے گلی کوچوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ مگر اس کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ نئے فوجی افسران خاص طور پر کیپٹن اور میجر لیول ، اپنے آپ کو اس سے بے نیاز نہیں رکھ پار ہے ہیں۔ اور کئی مقامات پر سویلین علاقوں میں انتقام گیر ی پر اتر آتے ہیں، جو صورت حال کو مزید بگاڑ دیتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے ایک وفد نے جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو کالج کی نوجوان لڑکیوںنے ان کو کہا کہ فوج کے رویہ کی وجہ سے وہ بھی ہتھیار اٹھانے اور میدان میں آنے کیلئے تیار ہیں۔ حکومت کی ترقیاتی اسکیموں کا ذکر کرتے ہوئے اس اعلیٰ فوجی افسر نے بتایا کہ کشمیر کی صورت حال کا ترقی و معیشت کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بلکہ یہ خالصتاً سیاسی نوعیت کا معاملہ ہے۔ بھارت میں جہاں اوسطً انتہائی غربت کی شرح21.9% ہے، جموں و کشمیر میں یہ محض 5.4% ہے۔ بھارت کے امیر ترین صوبوں گجرات میں یہ 16.63%اور مہاراشٹرہ میں 17.35%ہے۔ سویلین افراد میں سے سپریم کورٹ کے ایک کشمیری پنڈت وکیل نے اس مذاکرہ میں شرکت کی ۔ اس نے یاد دلایا کہ حکومت کی ناقص پالیسی کی وجہ سے پوری کشمیر ی آبادی کرو یا مرو پر آمادہ ہے۔ اس کے مطابق کشمیر کی صورت حال میں پاکستان کی حیثیت کمرے میں ہاتھی جیسی ہے ، جس سے نپٹے بغیر حالات بہتر بنائے جاسکتے ہیں نہ ہی کوئی حل ڈھونڈ ا جاسکتا ہے۔ ایک سابق پولیس سربراہ کا کہنا تھا کہ کشمیر کی بھارت نواز پارٹیوں یعنی نیشنل کانفرنس ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور آزادی نواز گروپوں کے درمیان گراونڈ لیول پر کوئی حد فاصل نہیں رہتی ہے۔ حریت کی ہڑتال کال پر ان پارٹیوں کے کارکنان بھی اسی شد و مد کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور عسکریت پسندوں کے جنازوں میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ پی ڈی پی کے ایک سینئر نوجوان لیڈر نے ایک دلچسپ بات کی طرف اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی اٹوٹ انگ کی رٹ کشمیر کی نفسیات پر وار کرتی ہے کیونکہ یہ ٹرم رئیل اسٹیٹ یا زمین و جائیداد کا احاط کرتی ہے۔ یعنی ایک عام کشمیر ی کو بتایا جاتا ہے کہ کشمیر کی زمین ہماری ہے ، تم بھا ڑ میں جائو۔ جبکہ پاکستان کی شہ رگ کی ٹرم انسانی جسم ، جذبات و احساسات کا احاطہ کرتی ہے ۔ یہ کسی بے سہارا انسان کی نفسیات کو ایڈریس کرتی ہے۔ میں کئی کالموں میں یہ ذکر کر چکا ہوں کہ دنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں کے برعکس عالمی میڈیا نے بڑی حد تک کشمیرکو نظر اندازکیا ہے۔ اگر رپورٹنگ ہوئی تو بھی دور دراز علاقوں تک رسائی نہ ہوسکی، حتیٰ کہ سرینگر کا میڈیا بھی بیشتر علاقوں میں جانے سے قاصر ہے۔ چند برس قبل بھارت کے ایک معروف کالم نویس اور قانون دان اے جی نورانی کے ہمراہ میں نے شمالی کشمیر میں لنگیٹ تحصیل کے ایک خوبصورت مقام ریشی واری کا دورہ کیا تھا۔ سرسبز جنگلوں اور پہاڑی نالوں سے پْر اس وادی میں داخل ہوتے ہی تقریباً 30 کلومیٹر تک سڑک سے ملحق سبھی گھروں کی دوسری منزل پر ہمیں فوجی جوان نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ گھروں کے مکین تو پہلی منزل پر رہتے ہیں اور دوسر ی منزل فوج کے لئے مخصوص ہے۔ یہاں گائوں والوں نے پہلی بار میڈیا سے وابستہ افراد کو دیکھا تھا۔ اسی طرح اگر سرینگر کے شیرِکشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکے آرکائیوزکو کھنگالا جائے تو ایسے ہوشربا کیسز کی تفصیلات ملے گی، جو بقول کئی ڈاکٹروںکے میڈیکل ہسٹری میں آخری بار صرف جنگ عظیم دوم کے دوران جرمن انٹیلی جنس کے ادارے گسٹاپو کے انٹروگیشن سنٹروں میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہاں ایک فائل عربی کے استاد 37 سالہ مظفر حسن مرزا کی ہے جس کو اکتوبر1991ء میں ترال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اس کو ہسپتال لایا گیا تو اذیتوںکی وجہ سے وہ Rhabdomylosis نامی بیماری کی انتہائی پیچیدہ نوعیت کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے پٹھے مائع میں تحلیل ہوکر پیشاب کے راستے باہر آرہے تھے۔ دوران تفتیش پٹرول سے تر لوہے کی سلاخ اس کی مقعد میں داخل کی گئی تھی جس نے مرزا کی انتڑیوں، معدہ اور پردہ شکم کو چاک کرکے پھیپھڑوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ اس کا ہسپتال میں تین ہفتے بعد انتقال ہو گیا تھا۔کئی غیر ملکی ڈاکٹر جو ایسے کیسزکی اسٹڈی کرنے کئی برس قبل کشمیر وارد ہوئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ 1983ء میں بیروت میں اور 1988ء میں آرمینیا میں زلزلوںکے بعد اس طرح کے کیسز محدود تعداد میں دیکھنے میں آئے تھے۔ یہ بات اب عیاں ہے کہ کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے اس کے زخموں پر مرہم لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ میں نے چند سال قبل اپنے ایک کالم میں خبردار کیا تھا کہ کشمیر میں عسکریت دم توڑ رہی ہے مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔ مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لئے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے یعنی رئیل اسٹیٹ کے بجائے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔