جب ہم کشمیرکی روح فرسا صورتحال قرطاس پربکھیرتے ہیں تو بڑی دیانت داری سے یہ بات کہنے کے بغیرکوئی چارہ کارنہیں بچتاکہ کشمیرسے متعلق عالمی طاقتوں’’سازشی ٹولے‘‘ کی کورچشمی اورانکے فہم ناقص اورزعم باطل سے کشمیری رنج کاشکاربنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کبھی دوٹوک، شفاف ،واضح،غیر مبہم ،ذوق اور ضمیر سے کشمیرسے متعلق بھارت سے مکالمہ نہیں کیا۔کشمیریوں کے اِتنے زخم اور دکھ اٹھانے کے بعدبھی سازشی ٹولے کاطرزعمل نہیں بدلا۔ بھارت سے ان کاوالہانہ محبت اور لگا ئوایسا قائم ہے کہ دیکھ کرجگرپرآراچل جاتاہے اور آنکھوں سے خون رواںہوجاتاہے۔ اخلاقی اور جمہوری آزادی کے علمبردار یہ نام نہادعلمبردارصرف مکاری اورفنکاری سے کام چلارہے ہیں انسانیت کے تئیں ان میں ہمدردی کاعنصرہے ہی نہیں بلکہ یہ سب ایک سے بڑھ کرایک درندے بن ہوئے ہیں۔جبری طورپرغلام بنائے گئے قوموں کی لاچارزندگی کی تفہیم اور اس کے رموز و اسرار کی تعبیر کے باب میں یہ سب اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھے بیٹھے ہیں۔ان کی اپنی نظر تجارت ،کاروبار،مفادات پرجمی ہوئی ہے،ان کا اپنا الگ زاویہ مقررہے اوروہ اِسی انفرادی زاویہ نظرسے معاملات کودیکھتے ہیں اورمظلوم قوموں کی حیات کے مدو جزر ،نشیب و فراز کو سمجھنے کے باوجودوہ حقائق تسلیم نہیں کرتے اورنہ ہی سچ کاساتھ دیتے ہیں ۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی لاک ڈائون کے50 روز بیت چکے ہیں، 5 اگست سے گھروں میں بند کشمیری مسلمان کرب ورنج کی کیفیتوںسے دوچارہیں اوران کی زندگی بدتر ہوگئی، قابض بھارتی فوج نے جوخوف کا ماحول قائم کررکھااس میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ارض کشمیر انسانوں کی سب سے بڑی جیل بن چکا جبکہ دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی انتہا ہو گئی ہے۔ کشمیری مسلمانوں کو نہ کھانے پینے کی اشیا دستیاب ہیں اور نہ ہی دیگر ضروریات زندگی مہیا ہیں۔کہیں ہمارے گھروں سے ہمیں بے دخل نہ کیاجائے کے خوف کے مارے اسلامیان کشمیری اپنے گھروں میں قید ہوکررہ گئے، وہ روزمرہ کی ضروری اشیا خریدنے سے قاصر ہیں، دودھ، بچوں کی خوراک، ادویات سب ختم ہوچکا ہے۔مقبوضہ وادی کشمیر کے ہر گلی کوچے پر بھارتی فوجی تعینات ہیں جن کی قائم کردہ چیک پوسٹوں پر خطرناک اسلحہ موجود ہے، کوئی شہری انتہائی ضرورت کے تحت اپنے گھر سے نکلنے کی کوشش کرے تو پیلٹ گن سے شدید زخمی کر دیا جاتا ہے۔ ظلم کی انتہا کہ ہسپتالوں میں ادویات تک ختم ہو چکی ہیں اور مریضوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ مقبوضہ وادی میں مارکیٹ، دکانیں، بزنس اور تعلیمی ادارے 50یوم سے مسلسل بند ہیںجبکہ تمام جامع مساجدمقفل پڑی ہیں ۔لگاتارآٹھ جمعوں سے جامع مساجدمیں نماز جمعہ کی ادائیگی نہ ہوسکی۔ مسلسل کرفیو کی وجہ سے اسلامیان کشمیرکی معیشت میں اہم انحصارکاحامل اورکشمیری مسلمانوں کی معاشی صورتحال میں ریڑھ کی ہڈی کادرجہ رکھنے والا’’ سیب ‘‘گذشتہ دوماہ سے درختوں سے گرکرسڑرہاہے۔اربوں روپیہ مالیت کاسیب پک کراب ضائع ہوچکاہے۔ کیوںکہ اگست اورستمبرکے ،مہینوں میں سیب اوردیگرپھل پک جاتے ہیں اورانہی دومہینوں میں اسے درختوں سے اتارکرمنڈیوں میں لایاجاتاہے۔ مسلسل کرفیواورلگاتار لاک ڈائون کے باعث وہ اپنی فصلیں منڈیوں اورپھر مارکیٹوں تک پہنچانہیں پارہے ہیں۔اسے یہ امرالم نشرح ہورہاہے کہ نہتے کشمیری مسلمان ہندوبھارت سے اپنی آزادی پانے کے لئے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔ جانی ومالی نقصان برداشت اگر’’عظیم قربانیوں ‘‘ کے عوض ارض کشمیرپنجہ ہنودسے آزادہوتالیکن دوردورتک منزل نظرنہیں آرہی اورآزمائشیں درازہوتی چلی جارہی ہیں۔ 72برسوں کے دوران کشمیری آزادی کیلئے جانیں قربان کرتے چلے آ رہے ہیں اور اتنے برس گزرنے کے باوجود آج بھی حالت یہ ہے کہ کشمیر کے کسی علاقے پر بھارت کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کشمیری باشندوں کو مسلسل جبر کے ذریعے گھروں میں بند کر کے بھارت دنیا کو دکھا رہا ہے کہ گویا اس کے یکطرفہ فیصلے پر کسی کشمیر ی نے احتجاج کیا نہ مخالفت کی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھی عالمی رہنمائوں سے کشمیر پر حمایت کے بدلے کاروبار کی بات کرتے ہیں۔ کچھ ممالک نے ان کی حکمت عملی کو قبول بھی کیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری دنیا کا ضمیر سو چکا۔ ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر جموں کارگل لداخ بلتستان گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست آبادی کے حساب سے اقوام متحدہ کے 140 اور رقبے کے حساب سے 112 رکن ممالک سے بڑی ہے۔ اس ریاست کی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ آج کی دنیا میں جس مقبوضہ ریاست جموںوکشمیرکی بات کی جاتی ہے وہ 27اکتوبر 1947 ء کوبھارت کے جبری قبضے اورجارحانہ تسلط کے باعث تمام تررشتوں کے باوجود پاکستان کاجز نہ بن سکی ۔اگرچہ ریاست جموں و کشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہی پوری ریاست متنازعہ کشمیر قرار پائی۔ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ اب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو پروپیگنڈے کے زور پر دہشت گردی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو یہ یقین دلاتا رہا ہے کہ اس مبینہ دہشت گردی کے پیچھے پاکستان ہے مگر مقبوضہ کشمیر اور لداخ کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور وہاں پر گزشتہ50روز سے کرفیو اور لاک ڈائون کرنے مواصلاتی روابط کو مکمل طور پر بند کرنے کے بعد پاکستان کا احتجاج تو ایک طرف خود بھارت کے اندر اپوزیشن جماعتیں انسانی حقوق کے پرچارک اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت بھی اس صورتحال پر سخت احتجاج کر رہی ہے۔ بھارت نوازکشمیری جماعتیں نیشنل کانفرنس اورپیپلز ڈیموکریٹک پارٹی تو یہاں تک کہہ رہی ہے کہ ان کے بڑوں نے دو قومی نظرئیے کو آزادی کے وقت رد کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی۔ اس مسئلے کی اہمیت روز بروز اسی لیے بھی بڑھ رہی ہے کہ بھارتی اقدامات پر اب دنیا کا ضمیر بھی جاگ رہا ہے اور عالمی برادری مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ بھارت کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہو سکتی ہے کہ جینڈر رائٹس ہیومن رائٹس جنیو سائیڈ واچ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی دوسری قابل ذکر تنظیموں میں سے کسی ایک نے بھی بھارتی حکومت کے اقدام کو درست قرار نہیں دیا۔ اقوام متحدہ او آئی سی اور یورپی یونین بھارت سے تنازعہ کشمیر مقامی آبادی کی رائے سے طے کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ امریکہ روس چین برطانیہ اور فرانس کے سربراہ اس معاملے پر اپنی تشویش ظاہر کر چکے سفاکیت اور مذہبی تشدد میں پاگل مودی حکومت کو اپنے اردگرد یہ تبدیلیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔اگرچہ دنیا کے سامنے بھارتی جمہوریت کا بدنما چہرہ پھر سے بے نقاب ہو ا لیکن تجارتی مفادات میں جکڑی دنیاپھر بھی پس وپیش سے کام لے رہی ہے ۔