سعودی عرب اور امارات کے وزرائے خارجہ کی پاکستان آمد‘ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں کشمیر کا ذکر تو ہے‘ مسئلہ کشمیر کا ذکر غائب ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ نہیں؟ اعلامیے میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی۔ یعنی وہاں انسانی حقوق اور بھارتی جبر و تشدد کی صورتحال۔ تین ہفتوں سے زیادہ لمبا لاک ڈائون‘ اس پر تشویش‘ مسئلہ کشمیر کدھر گیا؟ مسئلہ کشمیر ہے کشمیر کی آزادی‘ حق خود ارادیت‘ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ماضی قریب تک مسئلہ کشمیر کی یہی تشریح تھی۔ عمران خاں کی حکومت مہینے بھر سے لاک ڈائون ‘ گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی پامالی کو ایشو بنا رہی ہے۔ اس کی گھر بیٹھ کر چلائی جانے والی خارجہ پالیسی کا محور یہی ہے۔ کیا یہ سوچھی سمجھی پالیسی ہے؟ مطلب یہ کہ بھارت کرفیو اٹھا لے جو اس نے ایک دن اٹھانا ہی ہے تو مسئلہ ختم؟فلسطین کے ساتھ بھی تو یہی ہوا۔ مسئلہ فلسطین اب اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کا کیس نہیں رہا‘ غزہ پر اسرائیلی گولہ باری کا معاملہ بن گیا ہے۔ وہ گولہ باری کرتا ہے‘ فلسطینی نوجوانوں کا قتل عام کرتا ہے تو عالمی ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ بیانات اور قراردادیں آتی ہیں‘ فون کی گھنٹیاں بجتی ہیں۔ آخر اسرائیل سیز فائر کر لیتا ہے یوں مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور عالمی ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے۔ یہی کشمیر میں بھی ہو رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ مسئلہ کشمیر میں پاکستان نے شروع دن سے غلطی کی اور اسے متنازعہ علاقہ مان لیا۔ کشمیر متنازعہ علاقہ تھا ہی نہیں۔ تقسیم ہندکے فارمولا کے تحت یہ پاکستان کا حصہ تھا جس پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔ عراق نے جب کویت پر قبضہ کیا تو کیاکویت’’متنازعہ‘‘ علاقہ بن گیا تھا؟ متنازعہ نہیں دنیا نے اسے مقبوضہ مانا۔ کشمیر بھی متنازعہ نہیں‘ مقبوضہ ہے۔ پرویز مشرف نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت بھی ختم کر دی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بالکل صحیح مطالبہ کیا اور یوں لوگوں کو بہت اہم لیکن بھولی ہوئی بات یاد دلا دی) کہ کنٹرول لائن پر باڑھ گرا دی جائے۔ یہ باڑھ بھارت نے لگائی تھی اور پرویز مشرف کی ملی بھگت سے لگائی تھی۔ پاکستان کی مرضی کے بغیر باڑھ لگ ہی نہیں سکتی تھی۔ علاقہ متنازعہ ہے تو باڑھ کہاں سے آ گئی ؟ یہ مشرف کی سوچی سمجھی حرکت تھی باڑھ لگا کر بھارت نے دنیا کو بتایا دیا کہ یہ ہمارا رقبہ ہے۔ متنازعہ نہیں۔ پاکستان اس باڑھ کو گرا دے جیسا کہ سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے ورنہ مسئلہ کشمیر سے دستبرداری کا رسمی آرڈیننس جاری کر دے۔ ٭٭٭٭٭ ایک رپورٹ میں کوئی ٹی وی اینکر فرما رہے تھے کہ عالمی برادری کو پاک بھارت کشیدگی پر تشویش ہے۔ عالمی برادری نے اس اینکرکو ضرور فون پر یہ بات بتائی ہو گی۔ بر سرزمین ایسی کوئی کشیدگی نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے جہاز ایک دوسرے کی فضائوں سے گزر رہے ہیں۔ ضروری اشیا کی درآمد برآمد بھی جاری ہے جیسا کہ دوا سازی کا سامان۔ سفارتی رابطے بحال ہیں، راہداریوں پر مذاکرات جاری ہیں، ہاں مسلمان زائرین کے لئے ٹرینیں شیخ رشید نے ضرور بند کردی ہیں۔ ایوب نے آپریشن جبرالڈ کے ذریعے مسئلہ کشمیر کی مسلمہ حیثیت کو متنازعہ بنا دیا۔ مشرف نے تو پھر بیڑہ ہی ڈبو دیا جو پوری طرح نہیں ڈوب سکا۔ حکمران رہ رہ کران دونوں کو یاد کرتے اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کوئی راز توہوگا۔ ٭٭٭٭٭ چار پانچ غریب صنعت کاروں کے ذمے 208ارب روپے قرضے معاف کرنے کا آرڈیننس بالآخر واپس لے لیا گیاہے۔ کیا واقعی؟ صدارتی آرڈیننس جاری ہو جائے تو وزیر اعظم اسے واپس نہیں لے سکتا۔ یہ قانونی مسئلہ ہے، ہاں پارلیمنٹ اسے مسترد کر دے تو یقین کیا جا سکتا ہے کہ بات ختم ہو گئی ہے۔ خیر‘ یہ تو منی قانونی حیثیت والا سوال ہے۔ ماہرین کی رائے ہی صائب ہو گی جو آج کل میں سامنے آ جائے گی لیکن ایک سوال دلچسپ ہے۔ خبر آئی تھی کہ وزیر اعظم نے اس آرڈیننس کا نوٹس لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے جس آرڈیننس کا نوٹس لیا۔ وہ جاری کس نے کیا تھا؟ صدارتی آرڈیننس دراصل صدارتی نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم آرڈیننس ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اسے تیارکرتا ہے‘ پھر صدر کوبھجواتا ہے جو اس پر دستخط کرتا ہے اور یوں وہ وزیر اعظمی سے صدارتی ہو جاتا ہے۔ زیر نظر کیس میں الجھن ہو گئی جاری کس نے کیا اور نوٹس کس نے لیا۔ اتفاق سے متذکرہ بالا غریب صنعت کار سارے کے سارے ان کے کرم فرما تھے۔ چلیے اسے اتفاق کی بات ہی سمجھئے۔ حکومت اتنی غریب تھی کہ حج پر سب سڈی ختم کر دی۔ پھر وہی حکومت اتنی مالدار ہو گئی کہ دسیوں گنا سبسڈی شوگر مافیا کو دے دی۔ یہ بھی اتفاق کی بات ہے کہ تمام دیگر مافیائوں کی طرح شوگر مافیا بھی ان میں شامل ہے پھر یہ حکومت مزید مالدار ہو گئی اور متذکرہ ’’غربا‘‘ کو 208ارب معاف کر دیے۔ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ وزراء کے بیانات صاف بتا رہے ہیں کہ وہ یہ ’’معافی‘‘ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ رقم قومی مفاد میں معاف کی گئی۔ اور قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں ہوا کرتا۔ ہاں موخر ہوجایا کرتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب پولیس کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ رحیم یار خاں تھانے میں قتل کئے جانے والے ذہنی معذور پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ مقتول صلاح الدین کی نعش کی تصویریں آ چکی ہیں۔ گرم استری سے کھال جلائی اور ادھیڑی گئی‘ تین جگہ پر چھری سے گوشت کاٹا گیا۔ پنجاب پولیس کے نزدیک یہ تشدد نہیں ہے۔ اللہ معاف کرے۔ پھر تشدد کسے کہتے ہیں۔ شاید پولیس یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ تشدد ہوتا کیا ہے‘ تمہیں کیا پتہ ‘ آئو تو بتائیں۔