اسی پس منظر میں ،جب بقول مصنف امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پوری طرح مسئلہ کشمیر میں ملوث ہوچکا تھا ، سلامتی کونسل نے ازخود اجلاس طلب کرلیا تھا اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا اہلکار فرینک کولنز دہلی میں موجود تھا،ہارورڈ مئیرز نے اقوام متحدہ میں پولیٹیکل اینڈسکیورٹی افئیرز کے ڈائیریکٹرکو 3 جنوری 1951 ء کو ایک خفیہ مکتوب لکھا۔جس کا عنوان تھا مسئلہ کشمیر: ممکنہ امریکی اور برطانوی لائحہ عمل۔جس میں اس نے لکھا کہ میں نے فرینک کولنز کے ساتھ مسئلہ کشمیر پہ بات کی کہ اگر پاکستا ن کے وزیر اعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کرتے(واضح رہے کہ جب بھارت نے برطانیہ کے دولت مشترکہ میں جانے کا فیصلہ کیا تو سوویت یونین نے بھارت پہ دبائو ڈالنے کے لئے لیاقت علی خان کو روس کے دورے کی دعوت دی تھی)تو ہمارے پاس کیا آپشنز ہونگے۔میں اور فرینک کولنز دونوں اس پہ متفق ہوئے کہ اس سے زیادہ کچھ بھی کرنا مسئلہ کشمیر میں امریکی مداخلت کو بڑھانا ہوگا جبکہ ہمارا برطانیہ سے معاہدہ ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے گا۔لیاقت علی خان ممکنہ طور پہ اپنی حکومت کی مضبوطی کی خاطر، فی الحال اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں،(لیاقت علی خان نے پانچ مئی1950 ء کو اپنے امریکہ کے دورے میں امریکہ کی طرف سے سوویت روس کے خلاف پاکستان میں امریکی اڈے قائم کرنے کے مطالبے پہ جواب دیا تھا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کروایا ہے، یہ مکتوب جنوری میں لکھا گیا لیکن بیک ڈور ڈپلومیسی ظاہر ہے اس سے قبل جاری تھی)۔ اگر پاکستان کی مغرب کی طرف جھکاو رکھنے والی حکومت کو اس وجہ سے خطرہ لاحق ہوا کہ سلامتی کونسل مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں یا فریقین کو کسی حل پہ متفق کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ہمیں بدلتے ہوئے حالات میں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں برطانیہ کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔ اگر برطانیہ اس کوشش میں ناکام ہوتا ہے تو امریکہ کو سلامتی کونسل کا اہم ترین رکن ہونے کی وجہ سے مداخلت کرنی ہوگی۔میں اور فرینک سمجھتے ہیں کہ سلامتی کونسل اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی ایک فریق یکطرفہ طور پہ کشمیر کا فیصلہ نہ کرسکے۔(یہ ذہن میں رکھئے کہ پاکستان فوجی کاروائی کے ذریعے نصف کشمیر آزادکرواچکا ہے اور یہ بھی کہ امریکہ کشمیر کو خودمختار دیکھنا چاہتا ہے،اس کے بعد ہی یہ نکتہ واضح ہوسکے گا)ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ بھارت کشمیر کے سلسلے میں اپنے کچھ اقدامات واپس لے سکتا ہے اگر اقوام متحدہ نے کوئی بڑی مداخلت کی۔27 اکتوبر 1950 ء کو بھارت نواز شیخ عبداللہ کی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس منعقد ہوئی جس نے مستقبل میں جموں و کشمیر کی شکل و صورت اور الحاق کے فیصلے کے لئے قانون ساز اسمبلی بنانے کی قرارداد منظور کی۔ شیخ عبداللہ بھارت کے ساتھ الحاق کرنا چاہتا تھا لیکن امریکی اشارے پہ کشمیر کی کسی حد تک خود مختاری بھی اسے مطلوب تھی۔دسمبر 1950 میں پاکستان کے وزیر خارجہ اور دولت مشترکہ امور کے وزیر سر ظفراللہ خان نے سلامتی کونسل کو جموں کشمیر میں ایک قانون ساز اسمبلی اور اس کے بھارت کے ساتھ الحاق کے مقاصد پہ احتجاجی مراسلہ ارسال کیا جس میں نہرو کے اس بیان کی مذمت کی کہ شیخ عبداللہ کا مذکورہ اقدام بھارت کے ساتھ الحاق کی تصدیق ہے۔احتجاجی مراسلے میں موقف اختیار کیا گیا کہ بھارت کا یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر پہ 13 اگست 1948 ء اور 5 جنوری 1949ء کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے۔اس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ سلامتی کونسل بھارت کو ایسے اور آنے والے مزید ایسے قدامات سے باز رکھے جس سے کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے کا انعقاد ممکن نہ رہے۔ایسا نہیں تھا کہ بھارت یا نہرو کشمیر میں امریکی سی آئی اے کی مداخلت سے بے خبر تھے۔انہیں انٹیلی جنس رپورٹیں مل رہی تھیں لیکن امریکی مداخلت خود بھارت کے حق میں جارہی تھی۔اس کی وجہ سے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر لٹکتا جارہا تھا۔اس کی تصدیق خود اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے فرینک کولنز نے کی کہ سلامتی کونسل پہ پاکستانی دبائو اور بھارت کی پہلو تہی کے باوجود سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کو ستمبر 1950ء سے فروری 1951 ء تک لٹکائے رکھا۔اس دوران امریکہ نے پاکستان کے حمایت یافتہ جہاد کشمیر کو بہانہ بنا کر پاکستان پہ دبائو بڑھائے رکھا تاکہ اس سے مرضی کا فیصلہ کروایا جاسکے۔کولنز کا خیال ہے کہ امریکہ اب بھی کشمیر پہ ایسا حل چاہتا ہے جس پہ دونوں فریق متفق ہوں ۔اس نے امریکی سینیٹر گراہم ،جو مسئلہ کشمیر پہ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ثالث تھے، کا حوالہ بھی دیا جو قبل از وقت(حالانکہ اس وقت تک خاصی دیر ہوچکی تھی) استصواب رائے کی تجویز پیش کی۔ اگر امریکی ثالثی کی واقعتا کوئی اہمیت ہوتی تو شاید اس تجویز پہ اس وقت عمل ہوسکتا تھا لیکن امریکہ در پردہ خود مختار کشمیر کی راہ ہموار کررہا تھا اس لئے ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ کشمیر میں آزادانہ استصواب رائے ہو اور کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں۔رپورٹ میں مزید درج ہے کہ آزادانہ استصواب رائے اتنا مشکل کام نہیں تھا۔ اگر پاکستان اپنی فوجیں اور قبائلی واپس بلالیتا اور آزاد کشمیر کو غیر مسلح کردیتا تو یہ اسی وقت ممکن ہوجاتا۔ وہ بھی اس صورت میں اگر سلامتی کونسل استصواب رائے کی ذمہ داری اس صورت میں لیتی کہ بھارت کا جموں کشمیر کے دفاع کا حق تسلیم کیا جاتا۔(یعنی پاکستان اپنے آزاد کردہ نصف سے بھی دستبردار ہو جاتا لیکن بھارتی افواج جموں کشمیر کے دفاع کے نام پہ وہاں موجود رہتیں ۔) یاددہانی کے طور پہ عرض ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق یہ تجویز امریکہ نے ہی پیش کی تھی لیکن کولنز کو اس پہ تحفظات تھے۔اس کا خیال تھا کہ یہ تجویز اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کے منافی ہے۔اگرچہ اقوام متحدہ کے پاک بھارت کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اگر انہیں علم ہوتا کہ پاکستان اپنی 32 بٹالین فوج آزاد کشمیر میں داخل کردے گا تو وہ اس مسئلے کو اس سے قبل ہی حل کرنے کی کوشش کرتے۔یعنی پاکستان نے بزور قوت جتنا کشمیر حاصل کرلیا،سو کرلیا۔ امریکی سی آئی اے کی اس رپورٹ سے جو انتہائی متعصب بھارتی مصنف سندیپ مبزے نے اپنی کتاب میں نقل کی صاف طور پہ یہ تاثر ملتا ہے کہ سلامتی کونسل آج بھی چاہے تو بھارت کو کشمیر پہ پیچھے ہٹنے پہ مجبور کرسکتی ہے لیکن آپ نے دیکھا کہ پچاس کی دہائی میں ہی اقوام متحدہ کو کس طرح مداخلت سے روکا گیا تاکہ پاکستا ن پہلے کی طرح کوئی یکطرفہ فیصلہ نہ کرسکے۔یہ امریکی منافقت کی اعلی ترین مثال ہے۔جہاں صدر ٹرمپ ایک طرف ثالثی کی پیشکش کرتے ہیں،فرانس میں مودی سے ملاقات میں کشمیر ایشو پہ بات کرنے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ امریکہ شروع دن سے ہی اس مسئلے کو الجھانے، کشمیر کی خود مختار حیثیت کو قائم رکھنے اور اسے پاکستان کی گود میں گرنے کے بچانے کے لئے ثالثی کے نام پہ کھلی اور پوشیدہ مداخلت کرتا رہا ہے۔(ختم شد)