مکرمی ! رمضان المبارک کا چاند جیسے ہی نظر آتا تو کشمیر میں ایک جشن کا سا سماں ہوجاتا۔ کشمیر کی گلیاں اور بازار رنگ برنگی قمقموں کی روشنی سے منور ہوجاتے اور مسجدیں اور خانقاہیں نمازیوں سے بھر جاتی تھیں۔ نوجوانوں کی ٹولیاں گھوم رہی ہو تی تھیں اورہرطرف درود وسلام کی صدائیں بلند ہورہی ہوتی تھیں۔ جب افطار کا وقت ہوتا تو بازار اور گلیاں سج جاتے اور افطار کیلئے بازاروں اور سڑکوں پر مقامی لوگ باہر سے آئے مہمانوں کیلئے کھجوریں ، پکوڑے اور شربت کے سٹال لگاتے ۔ کہتے ہیں کہ کشمیری سال کے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں رمضان میں بہت زیادہ کھاتے ہیں ۔ اس لیے اہل ثروت بہت زیادہ خیرات کرتے تھے اور ضرورت مندوں کی خدمت کی جاتی اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کی جاتی۔ رمضان المبارک کی آخری رات تو لوگ رمضان المبارک کے الوداع ہونے پر گریہ وزاری کررہے ہوتے اور دعائیں کررہے ہوتے کہ اللہ تعالیٰ اگلے سال بھی انہیں رمضان کے روزے نصیب کرے۔ لوگ عید کی خریداری کیلئے بازاروں کا رخ کرلیتے ۔ عید کے دن صبح عید کی نماز کیلئے مرد حضرات چلے جاتے اور گھروںمیں خواتین ان کی واپسی تک پسندیدہ کھانے تیار کرلیتیں ۔ لوگ خوشحال تھے اور ہرطرف امن وخوشی کی فضائیں تھیںلیکن ان کی خوشیوںکو کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی اور جہاں خوشی اور انبساط کی فضائیں تھیں وہاں خوف و یاسیت نے مہیب چادر تان لی۔ لوگوں کے خاندان بکھر گئے ان کے پیارے ان سے بچھڑ گئے اور خوشحالی کی جگہ تنگدستی نے لے لی۔کشمیریوں خاص طور پر خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا جارہاہے ۔ (ساجد ہاشمی‘ آزاد کشمیر)