اگرچہ پاکستان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش پر زبردست جوش وخروش پایاجاتاہے لیکن کشمیر کے اندر حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نہ صرف ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرچکی بلکہ مزید چالیس ہزار فوج سری نگر روانہ کرنے کا عمل شروع کردیاگیا ہے۔خدشہ ہے کہ اگلے چند دنوں یا ہفتوں میں بھارتی آئین کا آرٹیکل 35-Aکی منسوخی کا اعلان ہوجائے گا۔یہ بہت ہی غیر معمولی فیصلہ ہوگا جو کشمیریوں کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں۔ اس دستوری شق کی منسوخی سے ریاست جموں وکشمیر میں بھارتی شہریوں کو زمین خریدنے اور مستقل رہائشی بننے کا راستہ کھل جائے گا۔ اندیشہ ہے کہ اس طرح لاکھوں بھارتی شہری سرکاری سرپرستی میں کشمیر میں آباد ہوجائیں گے جو ریاست کی آبادی کا تناسب ہی نہیں بگاڑیں گے بلکہ مسلم شناخت بھی ختم کردیں گے۔چنانچہ امکانی احتجاج کو روکنے کی خاطربھاری تعداد میں فورسز تعینات کی جارہی ہیں۔ البتہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش نے کشمیر کے مسئلہ کو ایک بار پھر عالمی بحث ومباحثے کا موضوع بنادیا ۔ دنیا بھر کے اخبارات اور الیکڑانک میڈیا کشمیر کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کررہاہے جو کہ ایک غیر معمولی اور مثبت پیش رفت ہے۔نائن الیون کے بعد عالمی منظر نامہ اس بری طرح بدلا کہ آزادی اور حق خودارادیت کی بات کرنے والوں کو دہشت گرد قراردیاجانے لگا۔ کسی بھی فورم پر اس موضوع پر گفتگوناپسندیدہ نہیں سمجھی جاتی تھی۔ حالیہ برسوں میں کشمیر کے پس منظر میں عالمی سطح پر کافی تبصرے ، تجزیئے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے رپورٹیں شائع ہوئیں۔ خاص طور پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کونسل کے ہائی کمشنر نے تیرہ ماہ کے اندر 88صفحات پر مشتمل دو رپورٹیں شائع کیں۔ ان رپورٹوں نے غیر متوقع طورپر بھارت اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا احترام کریں۔عشروں بعد اقوام متحدہ ایک بار پھر اپنے اصل کی طرف لوٹی ہوئی نظر آئی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان رپورٹس کوتسلیم کیا۔ عالمی سطح پر ہونے والی دوسری اہم پیش رفت جس پر پاکستان میں کم ہی گفتگو ہوئی وہ تھی کہ ایک غیر جانبدار اور آزادنہ انکوائری کمیشن قائم کرنے کی تجویز۔ انسانی حقوق کمیشنز کی ان دونوں رپورٹوں میں تجویز کیا گیا کہ یہ کمیشن پاکستان اور بھارت کے زیرانتظام ریاست جموں وکشمیر کے دونوں حصوں میںجاکر انسانی حقوق کی صورت حال کا جائز لے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری پامالیوں پر رپورٹ پیش کرے۔ یاد رہے کہ اس طرح کے کمیشن شام ، دارفور اور غزہ جیسے علاقوں کے لیے حالیہ برسوں میں بنائے گئے جنہیں عالمی تنازعات قراردیاجاتاہے۔ اگرچہ ان رپورٹوں اور ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو بھارتی حکام نے مسترد کردیا لیکن بھارت کے سنجیدہ طبقات کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جسے طاقت کے زور پر حل نہیں کیاجاسکتا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں طاقت کا جس قدر اور بے محابا استعمال کیاگیا اس کی کوئی نظیر تلاش کرنا محال ہے لیکن اس کے باوجود نہ صرف تحریک زندہ ہے بلکہ بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق لوگوں کی ناراضی اور غصے میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ پلوامہ اور بالاکوٹ حملے کے بعد بھارتی جنگی طیارے کی پاکستان حدود میں گرنے اور پائلٹ کی گرفتار ی کے بعد بھارت میں ہونے والے الیکشن کے ماحول نے فضا کو بہت مکدر کررکھاہے۔ بی جے پی کی حکومت کے لیے کو ئی قدم اٹھانا آسان نہیں۔ پاکستان اور کشمیر مخالف مہم کا الیکشن میں کامیاب تجربہ کیاگیا۔ لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیئے اور انہیں بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ مسند اقتدار پر فائز کیا۔سیاسی جماعتیں اکثر اوقات اپنے ہی بیانیہ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بی جے پی کی موجودہ قیادت بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ امکان ہے کہ رواں برس کے آخر تک کرتارپورراہ داری کھلنے سے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔ یہ ایک عہد ساز اور یادگار تقریب ہوگی ۔ دنیا بھر پاکستان کی طرف سے کرتارپوری راہ داری کھولنے اور سکھوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی بھرپور تحسین کی جارہی ہے۔ یہ بھی بتایا جارہاہے کہ امریکہ، یورپ اور کینیڈا کے سکھ سرمایاکار کرتارپور کے نواح میں فائیو اور سیون سٹار ہوٹل بنانے کے لیے حکومت پاکستان سے معاہدے کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس طرح یہ علاقے عالمی سیاحوں کی تفریح کا بھی ایک مقام بننے جارہاہے۔ وزیراعظم عمران خان نے حکومت سنبھالتے ہی خطے میں امن ، علاقائی تجارت، موصلاتی نظام کی بہتری سے باہمی رابطوں کی جو حوصلہ افزائی کی اس کے مثبت نتائج اب سامنا آنا شروع ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں ان کی ہونے والی پذیرائی کا ایک بڑا سبب ان کا مثبت طرزفکر اور انسانوں کی فلاح و بہبوداور خوشحالی کا مسلسل ذکر کرنا بھی تھا۔ دورے میں انہوں نے کہیں بھی تصادم اور جنگ وجدل کا ذکر نہیں کیا بلکہ کشمیر کے حوالے سے بھی اس کے انسانی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ٹرمپ کے سامنے کہا کہ ستر سال سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ اب اسے حل ہوجانا چاہیے۔ امریکہ کے ادارہ امن میںانہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ پاکستانی کشمیر کے لیے کیا چاہتے ہیں بلکہ ضروری یہ ہے کہ کشمیر ی کیا چاہتے ہیں۔ اس ایک جملے نے دنیا بھر میں آباد کشمیر یوں کو خوشی سے نہال کردیا۔ کیونکہ جموںوکشمیر کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ان پر کوئی اپنی مرضی مسلط نہ کرے۔ قطعیت سے کہنا قبل ازوقت ہے کہ ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا لیکن اتناضرور ہے کہ کشمیر ایک بار پھر عالمی ایجنڈے پر آگیا ہے۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤںکے مصداق امریکہ کسی تنازعہ میں دلچسپی لیناشروع کرتاہے تو پورا عالمی نظام متحرک ہوجاتاہے۔ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے اداروں کو حوصلہ ملتاہے اور وہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر چین نے ثالثی کی پیشکش کی حمایت کرکے امریکہ کا وزن بھی بڑھادیا ہے اور مسئلہ مزید عالمگیریت عطا کی ہے۔