نیویارک (نیٹ نیوز) بھارت کی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ اور صحافی ارون دھتی رائے نے اپنے مضمون میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے ، اسکے گھمبیر اثرات اور بھارت میں ریاستی پالیسیوں پر ہندو انتہاپسندی کے بڑھتے اثرورسوخ کا ایک فکر انگیز جائزہ لیا ہے ۔ نیویارک ٹائمز میں ’’ خاموشی بہترین بلند بانگ آواز ہے ‘‘ نامی مضمون میں ارون دھتی رائے نے حالیہ پیشرفت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ تقسیم ہندوستان کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔ریاستوں کے بھارت میں انضمام کا معاملہ بہت دردناک رہا ہے اور ہزاروں زندگیاں اسکی بھینٹ چڑھ گئیں۔بھارت میں 1947 کے بعدقوم کی تعمیر کے بینر تلے انضمام کے منصوبے کے تحت ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب بھارتی فوج کو اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہریوں کیخلاف تعینات نہ کیا گیا ہو، کشمیر، میزروام، ناگالینڈ، منی پور، حیدرآباد اور آسام میں، یہ فہرست کافی طویل ہے ۔نئی دہلی نے 1987 میں کشمیر میں انتخابات میں دھاندلی کرائی جسکے بعد وہاں استصواب رائے کا پرامن مطالبہ مکمل آزادی کی تحریک میں بدل گیا،ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا، قتل عام کی ایک کے بعد دوسری لہر آئی۔ لوگوں نے ہتھیار اٹھا لئے ۔ آج کشمیر دنیا میں سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا علاقہ ہے ۔ وادی میں لاکھوں فوجی تعینات ہیں جبکہ خود فوج اعتراف کرتی ہے کہ مٹھی بھر حریت پسند موجود ہیں۔ اگر پہلے کوئی شک تھا تو وہ اب دور ہو گیا کہ بھارتی حکومت اور فوج کی اصل دشمنی کشمیری عوام سے ہے ۔ 70 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے ، ہزاروں لاپتہ ہیں، دسیوں ہزار ٹارچر سیلز میں تشدد سے دم توڑ گئے کشمیر کو عراق کی بدنام زمانہ ابوغریب جیل بنا دیا گیا۔ سینکڑوں نوجوان پیلٹ گنز کا شکار ہو کر بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔مودی حکومت نے بارود کے ڈھیر میں چنگاری بھڑکا دی ہے ۔ وزیراعظم مودی نے قوم سے خطاب میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فوائد گنوائے اور کشمیریوں کو باور کرایاکہ اب انکی پرانی اور کرپٹ قیادت کے بجائے براہ راست دہلی سے ان پر حکومت کی جائیگی، اور انہوں نے بالی ووڈ کو بتایا کہ اب دوبارہ سے وادی میں فلموں کی شوٹنگ کس طرح سے کی جا سکے گی، تاہم وضاحت نہیں کی کہ اگر اتنے ہی فائدے ہیں تو کشمیرکو لاک ڈاؤن کرنے کی ضروت کیوں پیش آئی۔ جب یوم آزادی کی تقریر میں مودی نے کہا کہ ہم نے کشمیر کے حوالے سے اقدام کر کے ایک قوم، ایک آئین کا خواب شرمندہ تعبیر کر دیا ہے تو ایک دن قبل ہی کئی ریاستوں نے ، جنہیں کشمیر کی طرح خصوصی حیثیت حاصل ہے ، یوم آزادی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ جب یہ سب ختم ہو گا، جوکہ ہونا ہی ہے ، تو کشمیر میں تشدد پھوٹا تو بھارت کے دوسرے علاقوں میں پھیل جائیگا،اور اسے بھارتی مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم کرنے کیلئے استعمال کیا جائیگا۔ ریاست اس موقع کو سماجی کارکنوں، وکلا، آرٹسٹ، طلبہ، دانشور، طلبہ کیخلاف بھی استعمال کریگی۔ ہر گزرتے دن کیساتھ آر ایس ایس اداروں پر گرفت مضبوط کرتی جائیگی اور اس مقام پر پہنچ جائیگی جہاں یہ خود ریاست بن جائیگی۔دانشور، لبرل اور سیکولر طبقہ سب سے پہلے نشانے پر ہو گا اور اسے تعلیمی و ثقافتی اداروں اور پالیسی سازی کے عمل سے بیدخل کیا جائیگا۔ بھارت میں میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تشدد پر اکسایا جا رہا ہے ۔مسلمانوں کو جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور انکار پر مشتعل ہجوم قتل کر دیتا ہے ۔اگر کشمیر پر فوج نے قبضہ کر رکھا ہے تو بھارت پر مشتعل گروہوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔