سری نگرمیں یہ افواہ گردش میں ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت سیاسی رشوت دے کر ایک غیرسنجیدہ شخص کو کشمیرکمیٹی کاچیئرمین نامزدکررہی ہے ۔اس گرم افواہ کی گردش کے بعد نوجوانان کشمیرسوشل میڈیا پر چھا چکے ہیں اوربیک زبان کہہ رہے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ کشمیریوں کی عظیم ترین قربانیوں کے ساتھ مذاق ہو گا جسے کسی بھی صور ت برداشت نہیںکیاجائے گا۔ میں نے کشمیرکے بزرگ رہنماسیدعلی شاہ گیلانی صاحب اور میر واعظ کشمیر ڈاکٹر عمر فاروق صاحب سے رابطہ کیا اورسوشل میڈیاپرکشمیری نوجوانوں کی طرف سے چھیڑی گئی اس نئی بحث پر استفسار کیا تو دونوں کاایک ہی موقف تھاکہ ہمیں یقین ہے کہ عمران خان کی حکومت ہرگزکوئی ایساغیرسنجیدہ فیصلہ نہیں لے گی جس سے کشمیریوں کی بیش بہاقربانیوں کی توہین ہو اور تحریک آزادی کشمیرکا مذاق اورتمسخر اڑایاجائے۔ سری نگرمیں اہل دانش کاکہناہے کہ پاکستان تحریک انصاف ’’کشمیرکمیٹی ‘‘کے سابق چیئرمین مولانافضل الرحمن کی یہ کہتے ہوئے کہ نوازشریف نے سیاسی رشوت کے طورپر انہیںکشمیرکمیٹی کی سربراہی دی سخت ترین ناقدرہی ہے اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اقتدارمیں آکر عمران خان وہی تاریخ دہرائے اور عامرلیاقت حسین کے نام سے موسوم ایک طفل مزاج اور بچگانہ حرکتیں کرنے والے شخص جوپل میں ماشہ پل میں تولہ دکھانے کاعادی ہے کو اس اہم ترین ذمہ داری پرتعینات کرے گا ۔سری نگرمیںسوشل میڈیاپرقابض بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپربنے ہوئے کشمیری نوجوانوں نے لکھاہے کہ عامرلیاقت حسین کسی بھی صورت میںکشمیریوں کوقابل قبول نہیں ہیں کیونکہ ماضی میں بھارتی ایجنٹ ایم کیوایم کے ہیڈ الطاف حسین کے ساتھ انکے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ قابض بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپرنوجوانان کشمیر کی جانب سے سوشل میڈیاپروائرل ہے کہ کشمیریوں کو امیدہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان تحریک آزادی کشمیرکے حوالے سے کوئی ایسااقدام نہیں اٹھائیں گے جس سے ایک نڈراوربہادرقوم اہل کشمیرکی دل آزاری ہو۔اہلیان کشمیرسمجھتے ہیں کہ وزیراعظم خان کی ٹیم میں نہایت سنجیدہ، معاملہ فہم، صاحبان فراست سیاسی شدو بد رکھنے اورتحریک آزادی کشمیرکوبخوبی سمجھنے والے لوگ موجودہیں جن میں سے کشمیرکمیٹی کے چیئرمین کاوہ انتخاب کرکے اسے یہ ٹاسک سونپیں گے کہ ماضی سے ہٹ کر اور روایتی طرزعمل ترک کرکے وہ متحرک اورفعال بنکر مظلوم کشمیریوں کی آوازکوچاردانگ عالم پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ کشمیرکمیٹی ہے کیااوراسکی اہمیت اور افادیت کتنی ہے۔1990ء میں جب کشمیرکے بہادر نوجوانوں نے بھارتی تسلط کوتوڑنے اوربرہمن سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بندوق تھام لی تو خطے میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ۔کشمیریوں کی جدوجہد کودیکھ کر1993ء میں پاکستان میںحکومتی سطح پر ’’کشمیرکمیٹی ‘‘ کاقیام عمل میں لایاگیاجوہنوزموجود ہے۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصدمسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگرکرناور اس کے حل کے لئے سفارشات مرتب کرنا تھا۔اس کمیٹی کوجو امورتفویض کئے گئے تھے ان میں اولاًیہ کہ عالمی سطح پریہ کمیٹی مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرے گی،ثانیاًسفارتی سطح پر کشمیریوں کے موقف اور حق خودارادیت کو عالمی برادری سے تسلیم کروانے کے لئے سرگرم عمل رہے گی ۔ کشمیر کمیٹی پاکستان کی سب سے مہنگی پارلیمانی کمیٹی ہے جس کا سالانہ بجٹ 2016ء کے اعدادوشمارکے مطابق چھ کروڑ سے زائد تھا۔کشمیرکمیٹی کے چیئرمین درجے ،حیثیت اور عہدے کے اعتبار سے وفاقی وزیرکے برابرہوتے ہیں۔ انہیںوہی مراعات حاصل ہیں جو ایک وفاقی وزیر کو حاصل ہوتی ہیں۔کشمیرکمیٹی کے چیئرمین کے لئے اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ اور سرکاری گاڑی اورپروٹوکول مختص ہے ۔ڈرائیور اور سکیورٹی کے عملے سمیت بائیس افراد ان کے کل وقتی ملازم ہوتے ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود کشمیرکمیٹی کی کارکردگی صفررہی ۔ کشمیرکمیٹی کو چاہئے تھا کہ وہ عالمی برادری کے سامنے بھارت کا بھیانک چہرہ بے نقاب کرتی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔کل کی طرح آج بھی کشمیر کاز اور کشمیریوں کالہواس امر کامطالبہ کرتا ہے کہ کشمیرکمیٹی کی چیئرمینی کسی ایسی شخصیت کو سونپی جائے جو انٹرنیشنل فورمزپر کشمیر یوںکے مؤقف کو سلیقے اور متاثرکن انداز سے پیش کرنے کا ہنر جانتا ہو جو اہل یورپ خصوصاًبرطانیہ جواس تنازع کو پیدا کرنے کا ذمہ دارہے کوانہی کی زبان میں یہ سمجھاسکے کہ کشمیرکے معاملے میںوہ کتنے مجرم ہیں۔مسئلہ کشمیرپاکستان کے اندرسٹیج سجانے کامتقاضی نہیں بلکہ یہ مسئلہ انٹرنیشنل فورمز پر اٹھانے اوراس پر لابنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ کشمیر کمیٹی کو اس کی اصل روح کے مطابق جب تک نہ فعال کیاجائے اور جن مقاصد کے لئے کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا انہیں بھرپور طریقے سے زیرنگاہ نہ رکھاجائے تب تک مقاصد حاصل نہیںکئے جا سکتے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ دلیل اوربرہان کی بنیادپر بین الاقوامی رائے عامہ کو یہ باور کروایا جا ئے کہ خطے میں مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے بغیر دیر پا امن ممکن نہیں۔ اب وقت آچکاہے کہ طریقہ کاربدلناچاہئے اور کشمیر کمیٹی سے اب سچ مچ میں کام لیاجاناچاہئے اگر ایسا نہیں ہوتاتوپھراسکی کوئی ضرورت نہیں۔تحریک آزادی کشمیر اور اس تحریک میں دی جانے والی قربانیوں کاعملی تقاضا ہے کہ طفل مزاجوں اورمسخروں کو چھوڑ کرسیاسی شعورکے حامل ایک باصلاحیت چیئرمین کے تحت کشمیر کمیٹی کے پاکستان اور آزاد کشمیر میں منی سیکرٹریٹ قائم کئے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہراس ملک میں جہاں پاکستان کے سفارت خانے قائم ہیں کشمیر کمیٹی کی طرف سے’’ ڈپلومیٹک کشمیر آفس‘‘ قائم کئے جائیں جہاںکشمیر کاسفارتی عملہ وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ مسلسل تعلق قائم کر کے ان کو مسئلہ کشمیر کو اسکے تاریخی پس منظر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعہ حل کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسکے ساتھ ساتھ جموںکشمیر کے لوگوں پر قابض بھارتی افواج اور بھارتی پولیس کے ذریعہ ڈھائے جارہے مظالم کو بھی اجاگر کرے گا۔ تحریک آزادی کشمیر کے دوران اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں لیکن دنیاکی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے بھارت مسلسل بربریت جاری رکھے ہوئے ہے اور اب وقت آچکاہے کہ ہم نے کشمیریوں کی قربانیوں کو زبان دے کردنیاکوجگانہ ہے ۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اپنے تمام خارجہ دفاتر، سفارت خانوںمیں ’’ کشمیرڈیسک‘‘ پر ایسے لوگوں کو تعینات کرے جومغرب کوانہی کی زبان میں انکی دھوکہ بازی ، تعصب اورانکی مکاری کوانہی کے فورموں پرطشت از بام کرسکیں اورمسئلہ کشمیر کو اس کے اصل تناظر میں اقوام متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں کی روشنی میں پوری دنیا کے سامنے اجاگر کرسکیں ۔ مشرف کے دوراقتدارسے ہی حکومت پاکستان نے کشمیرکے حوالے سے لڑھکناشروع کیا تھا زرداری اور نواز شریف تک یہ سلسلہ رک نہ سکا بھارت نے مشرف کے دورمیں لائن آف کنٹرول پر آہنی باڑ لگادی اور اس طرح کشمیریوں کے سینوں پرکھنچی گئی اس خونی لیکر پراہل کشمیرکے عبورومرور پرجبری قدغن لگ گئی اس باڑ بندی کی وجہ سے آزادی کشمیرکابیس کیمپ عضو معطل بن گیا۔نئی حکومت اسی ڈگرپرچلی تو کشمیری اس سے بھی بدظن ہونگے۔ 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد غاصب بھارتی افواج کی کھلی بربریت سے 117 کشمیری نوجوان شہید ہوئے 16ہزار زخمی جبکہ سینکڑوں بچوں کی آنکھیں پھوڑ دیں گئیں۔ اس صورتحال کے بعد پاکستان کی پارلیمانی کشمیرکمیٹی پر سوال اٹھنے لگے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے متحرک اورفعال کیوں نہیں۔ مقبوضہ کشمیرسے نواز شریف حکومت کے نام مسلسل پیغامات ملتے رہے ہیں کہ ’’کشمیر کمیٹی‘‘ کو متحرک اور فعال بنایاجائے اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے لیے ایک ایسی شخصیت سامنے لائی جائے جو بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرسکے۔ اگرخدانخواستہ کشمیرکمیٹی کے حوالے سے عمران خان کی حکومت بھی متضادرویوں کی شکاررہی تویہ کشمیریوں کے لئے ہرگز اچھا پیغام نہیں ہو گا۔کشمیرکمیٹی کے چیئرمین کی نامزدگی نئی حکومت کے لئے ٹیسٹ ہوگاکہ آیااسکی کشمیر پالیسی اپنے پیشروئوں ہی کی طرح ہوگی، یاپھرایسی تبدیلی نظرآئے گی کہ جس سے کشمیریوں کواطمینان مل سکے کہ پاکستان کی نئی حکومت انکے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔