یہ بات تو ہماری حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ ہم جو کشمیر پر بھارت کی غضب ناکی کا ایک سال پورا ہونے پر احتجاج کر رہے ہیں، اس کی حیثیت علامتی ہے۔ اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہم ایسا محض دکھاوے کے لئے کر رہے ہیں‘ بلکہ کہنا یہ ہے کہ ہم خاموش رہتے تو دنیا یہ سمجھتی کہ ہمیں کشمیر کے معاملے سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہم اس پر واویلا کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بھارت نے ساری حدیں پار کر دی ہیں اور عالمی ضمیر نے خاموش رہ کر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ تاہم کشمیر کی آزادی کے راستے پر یہ صرف ایک نعرہ مستانہ ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔اس لئے اس پر بہت سے سوال اٹھائے گئے۔ ان سوالوں کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمیں کم از کم یہ کرنا ہو گا‘ مگر یہ کافی نہیں ہے اور نہ ہمارے شایان شان ہے۔ ہم نے اچھا کیا کہ کشمیر جنگ آزادی کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی کو پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز’’ نشان پاکستان‘‘ دینے کا اعلان کیا‘ مگر یہ بھی کافی نہیں ہے۔ تھا مگر ضروری۔ اس کی حیثیت بھی محض علامتی ہے، اس سے پہلے ہم نے یہ اعزاز بھارت کے ایک سابق وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کو دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ تو بہت ہی علامتی تھا‘ مگر سید علی گیلانی کے معاملے میں یہ ناگزیر بھی ہے۔ یہاں ان اقدام کی فہرست گنوائی جا سکتی ہے جو کشمیر کے بارے میں ہم علامتی طور پر کرتے ہیں اور اس کی گاہے بگاہے داد بھی وصول کرتے رہتے ہیں۔ان پر اعتراضات بھی ہوتے رہتے ہیں، اس بار ہم نے پاکستان کا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے ،ہم نے ایسا اس لئے کیا ہے کہ بھارت اس سے پہلے اپنا نقشہ جاری کر چکا ہے جس میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا حصہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہم نے جواب الجواب کے طور پر ایسا کیا ہے۔ یہ ردعمل ہے جو ضروری تھا۔ اس پر مگر کئی سوال ابھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے دھیرے سے ایک دو سوال اٹھا دیے ہیں۔ ایک تو یہی کہ ہم تو کشمیر کو متنازعہ علاقہ کہتے رہے ہیں اور یہاں یو این او کی قرار دادوں کے تحت ریفرنڈم کی بات کرتے رہتے ہیں۔ اب اگر ہم نے اسے پاکستان کا حصہ ڈیکلیئر کر دیا ہے تو پھر ہمارے اس دعوے کا کیا بنے گا؟ عباسی صاحب کا یہ خدشہ اس لحاظ سے درست ہے کہ بھارت نے بھی واویلا شروع کر دیا ہے۔ ماہرین یہ بات اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں کہ ہم کشمیر کی متنازع حیثیت کے حوالے سے اپنے موقف سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے نہ اب یہ نقشہ جاری کر کے ہوئے ہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ جب ہم کہتے ہیں بھارت کا مقبوضہ علاقہ بھی ہمارا حصہ ہے اور یہ کہ اس پر دشمن کا قبضہ ہے تو پھر اس قبضے کو چھڑانے کے لئے ہم عملی اقدام کب کریں گے۔ عملی اقدام سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ پھر تو ہمیں کشمیر کو بزور قوت واپس لینے کے لئے عملی اقدام کرنا چاہیے۔ عملی اقدام کا مطلب ہے کہ فوجی کارروائی کرنا چاہیے۔ اس بات کو جتنا پھیلایا جائے یہ پھیلتی جائے گی تاہم میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ احساس پیدا ہونا، لاکھ ہماری مقتدرہ کے لئے مسائل پیدا کرے مگر اس سے دلوں میں یہ جذبہ بیدار ہو گا کہ بس کشمیر کو آزاد کرانا ہے۔ ویسے خدا لگتی کہیے ہم نے کیا ایسا نہیں کیا۔ بھارت سے ہم نے ایک بار نہیں۔ تین چار بار جو جنگیں لڑی ہیں وہ کشمیر ہی کی خاطر تو تھیں۔65ء میں آپریشن جبرالٹر‘89ء کے بعد حریت پسندوں کے شانہ بشانہ ہم کھڑے تھے۔ سوائے ایک مشرف کے سبھی کہتے تھے کہ ہمیں کشمیریوں کے ساتھ ہر حال میں کھڑے رہنا ہے ،چاہے اس کی کتنی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ مشرف البتہ ہماری تاریخ کا ایک عجیب الخلقت کردار تھا۔ جب واجپائی آئے تو مشرف نے سلوٹ کرنے سے انکار کر دیا گویا یہ تاثر دیا کہ فوج بھارت سے تعلقات کو اچھا نہیں سمجھتی۔ پھر کارگل پر چڑھ دوڑا۔ اس پر بحث یہ نہیں کہ نواز شریف آن بورڈ تھے یا نہیں بلکہ بقول واجپائی یہ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا اور آخر میں آگرہ مذاکرات کے لئے یہ تاریخ سے پہلے ہندوستان روانہ ہو گئے۔ افغانستان کا بھی اس نے سارا نقشہ بدل دیا۔ ہم نے افغانیوں سے مل کر دس حملہ آوروں کے خلاف جنگ لڑی۔ یہ کم بخت امریکہ سے مل کر افغانیوں کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ اس نے کشمیر کا پورا بیانیہ بدل ڈالا۔ حریت کی جنگ دہشت گردی کی جنگ بن گئی اور ہم اپنی حکومت کو جواز دینے کی دھن میں آڈٹ آف باکس حل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ہندوستان کے خلاف بار بار فوجی طاقت استعمال کی۔ درمیان میں جب کوئی عافیت کوشش یا مصلحت پسند مسند اقتدار پر بیٹھا تو وہ بس اپنا جواز تلاش کرتا۔ کیا دھرا اس آمر کا ہوتا‘ الزام مسلح افواج کے سر آتا۔ہم نے سب تدبیریں آزمائی ہیں۔ 1۔ہم نے جنگ کی 2۔ہم نے صرف اخلاقی مدد فراہم کرنے پر اکتفا کیا۔ 3۔عالمی سطح پر بھی ہم بہت چیخے چلائے۔ 6۔ہم تھک ہار کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ بھی گئے کہ دنیا کو باور کرائیں کہ ہم امن پسند ہیں۔ ہم نے سارے پاپڑ بیل ڈالے۔ اس لئے یہ کہنا غلط ہو گا کہ ہم کچھ نہیں کرتے۔ جب وزیر اعظم پاکستان آزاد کشمیر اسمبلی میں جاتے ہیں تو آزاد جموں کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی تقریر سننے والی ہوتی ہے جب وہ ایک ایک طرف اشارہ کر کے بتاتے ہیں کہ کون کس کس حریت پسند کی اولاد ہے۔ جب وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے آبائی گھر کا ذکر کرتے ہیں تو دل سینوں میں اچھلنے لگتا ہے کہ یہ کیا کچھ چھوڑ چھاڑ کر آئے ہیں۔ اس بار شروع میں ایک دو فقروں میں ہمارے وزیر اعظم راجہ صاحب کی تقریر کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتے تھے ،پھر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی طرف چل دیتے ہیں، پھر مگر انہیں لگتا ہے احساس ہوا کہ آج وحدت ملّی دکھانے کا دن ہے۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی۔ یہ جو کچھ بھی ہوا ۔ علامتی حیثیت رکھتا ہے اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ نمبر بنانے کا دن ہے۔ ہمیں کشمیر کی جنگ صرف اپنے گھر میں قوت بازو دکھا کر نہیں لڑنی‘ بلکہ اس کے لئے ہمیں عملی طور پر کچھ کرنا ہے۔ ہم اس پر خوش ہیں کہ اس دن سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس ہوا۔ اچھی بات ہے کہ سلامتی کونسل نے اس معاملے پر تین اجلاس کر ڈالے ایک سال کے اندر انہیں بار بار غور کرنے کے لئے اکٹھا ہونا پڑا۔ مگر یہ سب غیر رسمی اجلاس ہیں۔ یہ وہ اجلاس نہیں جس میں ویٹو استعمال ہوا کرتا ہے ہماری کامیابی تب ہو گی جب ہم ویٹو کے تیروں سے بچا کر کوئی بامعنی اور بامقصد قرار داد حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہم ایسے مست ہوئے کہ ہم نے او آئی سی کو للکار ڈالا کہ تم کچھ نہ کرو گے تو ہم ان ہم خیال مسلم ممالک سے مل جائیں گے جو کشمیر پر ہمارے ہم خیال ہیں، ہمیں معلوم ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ مطلب صاف اور واضح ہے۔ سعودی عرب نے ہمیں سمجھا دیا تھا کہ ترکی اور ملائشیا اور ایران سے مل کر کوئی اتحاد بنانے کا مطلب سعودی عرب کے خلاف عالم اسلام کی متبادل قیادت پیدا کرنا ہے۔اس پر شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ کیا کر رہے ہو’’سعودی بادشاہ‘‘ کو ناراض کر رہے ہو۔ ہمیں اندازہ ہونا چاہیے ہماری محدودات کہاں تک ہیں۔ یقینا ہم سفارت کاری کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ماضی میں ہم کبھی اتنے بے بس نہ تھے۔ اس سلسلے میں جو طرم خانی دکھائی جاتی ہے۔ وہ اپنے لوگوں کے دلوں میں نمبر بڑھانے کے لئے ہمیں کچھ نہ کچھ بامعنی بھی کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کرتے تو علامتی کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ سب کچھ دکھاوے کے لئے ہے۔ ہم نے ایک سال پہلے بھارت پر جو پابندیاں لگائی تھیں‘ اس کا تیا پانچہ کرتے رہتے ہیں۔ خطے کے حالات بدلتے جا رہے ہیں۔ ہمیں یک سو ہو جانا چاہیے۔ ایم ایل ون کا جو ریلوے منصوبہ دو تین سال میں بننا تھا اسے 9سال تک لے گئے ہیں۔ یہی تو ہمارے دشمن چاہتے ہیں۔ ادھر چین نے ایران سے بھارت کی چھٹی کرا دی ہے اور ایران اب سی پیک کا حصہ اور چین کا تزوینی پارٹنر ہے۔چین نیپال کو بھی کہہ رہا ہے کہ ہم تمہارے لئے ہمالہ تراش کر راستہ بنائے دیتے ہیں جو تمہیں بھارت سے بے نیاز کرا دے گا۔ یہ راستہ سی پیک کے راستے نیپال کو سمندر تک لے جائے گا۔ جلد یا بدیر وسط ایشیا کے ممالک بھی اس راستے پر آنا چاہیں گے۔ ہم نے اپنی رفتار سست کر دی ہے۔ یہ سب کچھ اس علاقے پر اثر ڈالے گا جو کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔ شاید کشمیر کی آزادی کا راستہ بھی اسی شاہراہ سے ہو کر گزرے گا۔ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہے کہ مستقبل کا راستہ یہی ہے۔ اس وقت تک بہت کچھ ہو جانا چاہیے تھا، ہم نے تو اپنی ریلوے لائن ہی کو نوسال کے لئے موخر کر دیا۔سڑکیں بنیں گی‘ ایئر پورٹ بنے گا۔ بندرگاہ چلے گی تو پھر دنیا میں انقلاب آئے گا اور یہ انقلاب کشمیر کو بھارت کے شکنجے سے چھین لے گا۔یہ مگر صرف ایک راستہ ہے۔ سری نگر جانے والے بہت سے راستے ہیں اور سب پر ہماری گرفت مضبوط ہونی چاہیے۔ ہمیں کچھ احساس ہی نہیں۔