اپنے اشتعال اور انفعال کے دورسے گذررہابھارت بجوگ اوربدبختی کے انگاروں کو ہوائے وارفتہ سے سلگائے ہوئے ہے۔اکیسویں صدی کی پہلی خونین شفق نمودارہونے کے ساتھ ہی مودی اورآرایس ایس کی شکل میں بھارتی مکروہ چہر ہ بھی کھل کر سامنے آیا،جس نے نام نہاد بھارتی سیکولرازم کاپردہ چاک کردیااور مودی کی بربریت کے سامنے بھارت کے مسلمان خس و خاشاک ٹھرے۔ہرشب کی کوکھ سے بھارتی مسلمانوں کے لئے آفات وبلیات نکل کرچارسو چنگھاڑیں مارنے لگیں۔ یہ چنگھاڑیںاس قدرخوف ناک ہیںکہ اسلامیان بھارت کاسینہ چاک، چاک اوردامن تارتارہوچکاہے ۔دل اس قدرزخمی کہ ان دریدہ دلوںکی رفوگری کسی بھی طورممکن نہیںہے۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانان بھارت تذلیل،تحقیر وتوہین، عذاب وعتاب ، الزام ودشنام کی بوچھار اور سلاسل وزنجیر کی جھنکار میںزندگی کے تلخ ،کسیلے اورکڑوے لمحات گذرانے پرمجبوربنادیئے گئے ہیں۔انہیں مسلسل دبائو میں رکھنے کے لئے یہ طعنہ دیاجاتاہے کہ تم’’ گھس بیٹھیے‘‘ ہو،یہاں سے دفع ہوجائواسی طرف واپسی کارخت سفر باندھ لوجہاں سے تمہارے آباء واجدادبھارت میں در آئے ہیں۔وہ ایسے دبائے جا چکے ہیں کہ زبان کی جنبش پرپس دیوار موجود رام راج کے غنڈے ان پرجھپٹ پڑتے ہیں اوران پراس قدرتشدد کرتے ہیں کہ ان کی ہڈی ،پسلی ایک کردی جاتی ہے۔ دوسری طرف اسلامیان مقبوضہ جموںو کشمیر کی لگاتار گردن زدنی ہورہی ہے ناز و نعم میں پلی اولاد ،گھبروجوان مزاروں میں سلائی جارہی ہیں۔ چاردانگ عالم خلق خدایہ سب جانتی ہے مگرزیرلب نہیں لاتی ،اس عالمی مجرمانہ خاموشی کے باعث اسلامیان کشمیرایک فراموش تصویر بن چکے ہیںاورکشمیرایک قلعہ فراموش بن چکاہے کہ اس قلعے میںقید 90لاکھ لوگ خلق خدا کی لوح یادداشت سے اب محوہورہے ہیں۔اسی لئے کوئی ان کی بازیابی کی بات نہیں کرتااورکوئی ان کاحال نہیں پوچھتا۔ ابرِ سیاہ کشمیرکے کوہ ودمن پر بدستور اپناڈیرہ ڈال بیٹھی ہے۔لیکن اسلامیان کشمیراس بات پریقین کامل رکھتے ہیں کہ سچ لاوارث نہیں ہوتا، خزاں کے کتنے ہی موسم گزر جائیں، سچ کی ٹہنی پر برگ و بار ضرور آتا ہے۔ سچ کولرزانے اورہلادینے کے لئے آنے والی بادصرصرگوکہ شدید ترین ہوتی ہے لیکن عارضی اور وقتی ہوتی ہے اس کی عمرزیادہ نہیں ہوتی ۔ایک دن ضرورآتاہے کہ جب رب العالمین مہربان ہوجاتے ہیں وہ خلق خدا کے دلوں میں رحم ڈالتے ہیں اورپھرزبان خلق ،نقارہ خدا بن جاتی ہے جب ہرطرف سے ظلم میںپسی ہوئی قوم کی مظلومیت اور مظلومین کے حق میں شوربرپا ہوتاہے تو مظلوم قوم پذیرائی میں آجاتی ہے۔ یہ نقارہ خداکب بج اٹھتاہے کچھ کہانہیں جاسکتا۔لیکن ایک بات توطے ہے کہ ضروربج اٹھے گا۔ 26 اکتوبر 2020 ء منگل کوبھارت کی مودی سرکار نے اراضی کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے رسوائے زمانہ قانون کو نوٹیفائی کردیا۔اس رسوائے زمانہ قانون کو جموں کشمیر اور لداخ ری آرگنازیشن 2020ء کے نام سے موسوم کیاگیا۔جس کی روسے مقبوضہ جموں کشمیر اور لداخ میں کوئی بھی غیر مقامی یعنی ہندوستانی ہندو شہری زمین خرید سکتا ہے۔بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون فوری طور پر نافذ العمل ہے۔قابل ذکر ہے کہ5 اگست2019 ء کے بعدمقبوضہ جموں کشمیرمیں کئی نئے اقدامات اٹھانے کے بعد سے مقبوضہ جموںوکشمیرمیں بھارت کے کالے قوانین نافذہونے کامہیب سلسلہ جاری ہے اورعذرلنگ یہ تراشاگیاہے۔ کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی کل اراضی کا لگ بھگ 86فیصد حصہ زرعی اور جنگلاتی ہے اور اس میں سے ایک انچ بھی کوئی باہر کا شہری خرید نہیں سکتاتھا۔لیکن اب نئے رسوائے زمانہ نافذ شدہ بھارتی قانون کے مطابق فوری طورپر30 فیصد اراضی انڈسٹریل سیکٹر یا سروس سیکٹر کئے لئے استعمال ہوسکے گی۔جبکہ اس نئے شرمناک قوانین کے نفاذ کا اصل مقصدمقبوضہ کشمیرکی مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا اور انہیںبے خانما،بے بس ،بے اختیاراوربے بال وپر بنانا ہے۔ مقبوضہ جموںوکشمیرمیں اب تک اراضی ایکٹ جسے’’بگ لینڈڈ اسٹیٹ انزولیشن ایکٹ 1952 ء کا خاتمہ اور زرعی اصلاحات ایکٹ 1976ء ‘‘کہا جاتا تھا، میں کشمیرکے مالکان اراضی کو ساڑھے 12 ایکٹر تک اراضی اپنے پاس رکھنے کی حد مقرر کردی گئی تھی اور اس طرح اس جاگیردار نظام کی باقیات کو ختم کردیا جس سے کسانوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔اس حد بندی کے باعث کبھی بھی جموں کشمیر من بھوک یا فاقہ کشی سے اموات نہیں ہوئیں، کسانوں کی جانب سے یہاں کبھی بھی خود کشی کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور جموں کشمیر میں سبھی لوگوں کے پاس زندگی کی تین بنیادی چیزیںروٹی کپڑا اور مکان دستیاب ہے،اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے اراضی قانون پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا گیا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں نافذ زرعی اصلاحات کے قانون ، کسی بھی غیر ریاستی باشندے’’بھارتی باشندے‘‘ کوکشمیرکی اراضی کا انتقال نہ کرنے کے حوالے سے مقامی باشندوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا تھا،جبکہ نئے سیاہ قانون کی ایک شق کے تحت زرعی زمین غیرریاستی باشندوں یعنی ہندوستانہ ہندشہریوں کو فروخت کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ بگ لینڈڈ اسٹیٹ انزولیشن ایکٹ 1952 ء کا خاتمہ اور زرعی اصلاحات ایکٹ 1976 ء میں ترمیم کسانوں کے خلاف ہے کیونکہ حصول سے متعلق حد کو ختم کیا گیاہے۔ ڈیویلپمنٹ ایکٹ میں تبدیلی اور فوجی زون کی تشکیل سے متعلق قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہونے سے بچنے کے لئے اور اس طرح کے علاقوں میں تعمیراتی سرگرمیوں اور ماہر تنظیموں ، ماحولیاتی کارکنوں اور سول سوسائٹی گروپوں کی نگرانی کو خارج کرنے کے لئے ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ ماحولیاتی علاقوں جیسے گلمرگ ، پہلگام اور سونہ مرگ پہلے ہی دباو میں ہیں جو ان کی صلاحیت سے باہر ہے۔بیان کے مطابق ترمیم کے ذریعہ اب جو قوانین متعارف کرائے گئے ہیں وہ نہ صرف جموں وکشمیر کے عوام کے خلاف ہیں بلکہ غیر جمہوری اورغیر آئینی ہے جس کا واحد مقصد لوگوں کو بے اختیار بنا کر آبادیاتی تناسب کو تندیل کرنا ہے۔