اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کشمیر کے مسئلے پر چینی مندوب نے واضح موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے جبکہ بھارت نے کشمیر کی زمینی حیثیت تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی پاس کردہ قرار دادوں کی نفی کی ہے جبکہ روس کے مستقل مندوب نے بھی مذاکرات پر زور دیا ہے۔ 71برس قبل بھارت بڑی چالاکی سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ لے کر گیا تھا، جس کا مقصد معاملے کو طول دے کر مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنا تھا۔ یکم جنوری 1948ء کو جب کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آیا تو اس نے 6جنوری 1948ء کو یہ معاملہ سلامتی کونسل کے سپرد کر دیا۔ جہاں پر پاکستان اور بھارت کے مندوبین نے اپنا اپنا مقدمہ پیش کر کے سلامتی کونسل کے ارکان کو مطمئن کرنا تھا لیکن بھارت نے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا۔21اپریل 1948ء کو برطانیہ ‘ بلجیم ‘ کینیڈا ‘ کولمبیا اور امریکہ کی طرف سے مشترکہ طور پر پیش کی گئی قرار داد منظور ہوئی جس میں اقوام متحدہ نے استصواب رائے کے لئے ایک منتظم مقرر کرنے کی منظوری دی۔ پھر 5جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے استصواب رائے کا اعلان کیا۔ تب سے لے کر اب تک اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو وعدوں کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ 5اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کر کے اسے اپنا حصہ بنا لیا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے لے کر آج تک بھارت نے مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کر کے کشمیریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ دوسری جانب کشمیری سراپا احتجاج ہیں اور کسی صورت بھی بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر کی تمام تنظیموں اور انسانی حقوق کے چمپئن ممالک نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جو قابل افسوس ہے۔ نوبت بایں جا رسید کہ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی کشمیر کی صورت حال پر بریفنگ معمول کا حصہ بن چکی ہے۔ چینی مندوب نے ایک بار پھر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جائے۔ جبکہ روسی مندوب نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے، تاکہ خطے میں جاری کشیدگی میں کمی واقع ہو۔مگر سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کا اس اہم مسئلے پر خاموشی اختیار کیے رکھنا باعث تعجب ہے۔اس معاملے پر عالم اسلام کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آئی چکی ہے۔57اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ بھی کشمیریوں کی نسل کشی پر خاموش ہیں۔جبکہ اس وقت ترک صدر اور ملائشیا کے وزیر اعظم ہی کشمیریوں کی اخلاقی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔ 1927ء کو پنڈت لیڈر شنکر لال کول اور جموں میں ڈوگرہ سبھا کی ایما پر ہی مہاراجہ ہری سنگھ نے قانون بنایا تھا جس کی رو سے کوئی بھی غیر ریاستی شخص ریاستی حکومت میں ملازمت کا حقدار ہو گا نہ ہی غیر منقولہ جائیداد رکھنے کا مجاز ہو گا جبکہ مئی 1947ء میں آر ایس ایس کی ایما پر ہی ہندو مہاسبھا کی ورکنگ کمیٹی نے جموں میں بلائے گئے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ایک قرار داد میں آزاد ریاست جموں و کشمیر کی حمایت کی تھی لیکن 71برس کے بعد ہندو دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس سے وابستہ تھنک ٹینک نے بھارتی سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی جس میں مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے آئین کی شق A35کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مودی حکومت نے آگے بڑھ کر آئین معطلی کا کام اپنے ہاتھوں کر دیا۔ حالانکہ جب آر ایس ایس سے وابستہ تھنک ٹینک نے سپریم کورٹ میں آئین معطلی کے بارے درخواست دائر کی تھی تب مودی حکومت نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا تھا لیکن پس پردہ وہ اس کام میں لگے رہے۔ در حقیقت مودی سرکار کو صرف کشمیریوں سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے بھی نفرت ہے۔ اسی بنا پر اس نے بھارت میں متنازعہ شہریت قانون نافذ کیا، جس کے بعد کوئی بھی مسلمان بھارت میں نہیں رہ سکے گا۔ اس وقت پورے بھارت میں سبھی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ سراپا احتجاج ہیں ۔ لیکن مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہو پا رہی۔ اقوام متحدہ جو دنیا بھر میں جاری تنازعات کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اسے بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جاری تشدد کی لہر کے خاتمے کے لئے موثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس خطے میں مسلمان بھی سکھ اور چین کی زندگی گزار سکیں۔ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر سفارت کاری کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اسے مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم ممالک میں پارلیمانی وفود بھیج کر مسئلہ کشمیر کے لئے حمایت لینی چاہیے۔ اگر پاکستان نے اس موقع پر کسی قسم کی سستی یا کاہلی سے کام لیا تو یہ نقصان دہ ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے معاملے پر دو ٹوک موقف رکھتے ہیں۔22کروڑ عوام ان کے اس موقف کی تائید بھی کرتے ہیں۔ انہیں سفارتی محاذ کو مزید گرم کرنا چاہیے۔ گو کہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلے پر بھارت پر سفارتی برتری حاصل ہے اور مسلم امہ کے علاوہ یورپی یونین بھی اس کے موقف کی تائید کرتی ہے لیکن اس موقع پر ذرا سی سستی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ فوجی مبصرین نے سلامتی کونسل میں کشمیر کے معاملے پر جو بریفنگ دی ہے اس کی روشنی میں آگے بڑھا جائے۔ چین پہلے ہی ہمارے ساتھ کھڑا ہے جبکہ روس نے بھی مسئلے کے حل پر زور دیا ہے ان دونوں ممالک کو ساتھ ملا کر نہ صرف خطے میں پوزیشن مضبوط کی جا سکتی ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی ہمنوا بنانے کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے ۔ اس وقت بھارت اندرونی اور بیرونی دبائو کا شکار ہے لہذا پاکستان کو اس سے فائدہ اٹھاکر71برس سے ظلم و ستم کی چکی میں پستے کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات دلانے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے ۔