اگست2019 معروف برطانوی میڈیکل جریدے ’’لانسیٹ‘‘نے اپنے ایک ادارتی مضمون میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کی ذہنی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں کے عوام کئی دہائیوں سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔ اقتصادی خوشحالی سے پہلے لوگوں کو پرانے ذہنی زخموں سے نجات چاہیے۔ طبی دنیا میں کشمیریوں کی ذہنی صحت کے بارے میں یہ پہلا تبصرہ نہیں تھا۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے’’ڈاکٹرز وداٹ بارڈرز‘‘ نے مئی 2016میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وادی میں مقیم 41فیصد افراد ذہنی دبا کا شکار ہیں۔ا سے ایک دہائی قبل 2006 میں شائع ہونے والے اپنے تحقیقی مقالے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر مشتاق مگروب کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پندرہ سالوں میں کشمیر میں شدید افسردگی، تنا اور پی ٹی ایس ڈی کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی ہندی سروس کی خاتون نمائندہ لکھتی ہیں کہ سری نگرکے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز’’ایمہانس‘‘سے وابستہ ایک سینئر ماہر نفسیات نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرانہیں بتایا کہ مذکورہ تحقیقی مقالوں میں موجود تمام حقائق درست ہیں۔انہوں نے پرینکادوبے سے اپنی گفتگومیں کہاکہ جب ہم نے 1990میں ذہنی صحت کا یہ مرکز شروع کیا تھا اس وقت سے ہر سال یہاں صرف 2000 مریض آتے ہیں۔ آج ہمارے سرکاری مرکز میں ایک لاکھ مریض آ رہے ہیں اور علاج کے لیے اندراج کر رہے ہیں۔ میں ان ایک لاکھ افراد میں ’’محکمہ چائلڈ سائیکالوجی‘‘ کے مریضوں کو شامل نہیں کررہا ہوں پھر بھی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے۔ بی بی سی ہندی سروس کی نمائندہ پرینکادوبے اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ پلوامہ کے سرکاری ہسپتال سے دس کلومیٹر آگے اب ہم اس ضلع کے آری ہل گائوں میں پہنچی تواس وقت خاموشی سے گرنے والی برف نے اس پورے گائوں کو سفید چادروں سے ڈھک دیا ہے۔ شناخت ظاہر کیے جانے کے بعد ڈرتے ڈرتے وسیم شیخ ہمیں مرکزی سڑک سے ایک کلومیٹر دور اپنے گھر لے گئے۔ ان کے گھر جانے کا راستہ دو فٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے۔گھر کی ملاقات میں 19سالہ سلیم جالی دار کشمیری پردے کے پاس سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ 2016میں سلیم دسویں کے امتحانات کے دوران پلوامہ میں ایک احتجاج میں پھنس گئے اور ان کی ایک آنکھ میں پیلٹ گن کی زد میں آ گئی۔وہ بیان کرتے ہیں یہ موقع تھاکہ جب برہان وانی کے انکانٹر کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے توبھارتی فوج نے مظاہرین پرپیلٹ فائرکئے جوان کی ایک آنکھ میں لگااوران کی آنکھ ناکارہ ہوئی ۔ لیکن بات اسی پر ختم نہیں ہوئی۔ مئی 2019میں پڑوسی گائوں کے ایک جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سلیم ایک بار پھربھارتی فوج کے پیلٹ فائرنگ میں پھنس گئے۔ اس بار ان کی دوسری آنکھ کے ساتھ ان کے چہرے اور جسم میں بہت سارے چھرے لگے۔ پرینکادوبے لکھتی ہیں کہ سلیم کے والد مجھے اپنے فون کی سکرین پر دو تصاویر دکھاتے ہیں۔ ایک میں ان کے بیٹے کا خون آلود چہرہ ہے اور دوسرے میں اس واقعے سے پہلے کی ایک تصویر ہے جس میں سلیم دھوپ کا چشمہ لگائے آدھی بازو کی کالی ٹی شرٹ میں نظر آتا ہے۔ بالوں میں انگلیاں گھماتا ایک عام نوجوان۔ تصاویر دیکھ کر پاس کھڑی سلیم کی والدہ رونے لگتی ہیں۔بغیر بینائی کے اپنی زندگی کے صدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیںمیرے گائوں میں مجھ جیسے اور بھی بہت سے لڑکے ہیں جنھیں پیلٹ لگے ہیں۔ میرے اب تک آٹھ آپریشن ہوچکے ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ روشنی واپس آنے کی امید بہت ہی کم ہے اور سلیم سارا دن افسردہ رہتا ہے۔دو منٹ تک سر جھکائے بیٹھے سلیم نے اچانک کہامجھے بھی شوق تھا۔۔۔کچھ بننے کا لیکن اب میری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ والدین کب تک میرا خیال رکھیں گے؟ یہ میری کچھ کرنے کی عمر تھی اور میں نابینا بنا بیٹھا ہوں۔ سری نگر کے ایمہانس میں اپنا علاج کروانے کے لیے پوری وادی سے لوگ آتے ہیں۔ تعداد میں اضافے کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیںآج کشمیر میں ہم بہت سارے مریضوںکو نفسیاتی دوائیں دے رہے ہیں۔بی بی سی ہندی سروس کی خاتون نمائندہ لکھتی ہیں کہ سری نگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال میں آج برف باری ہو رہی ہے۔ یہاں ہماری ملاقات سب سے پہلے 23سالہ صاحبہ سے ہوتی ہے جو نفسیاتی او پی ڈی میں بیٹھی ہیں۔ سری نگر میں بی ٹیک کی تعلیم حاصل کرنے والی صاحبہ پچھلے پانچ مہینوں سے ڈپریشن کا علاج کرا رہی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ سارا دن ان کا موڈ غمزدہ رہتا ہے اورمیں سارا دن اپنے اندر ایک منفی توانائی محسوس کرتی ہوں۔ اپنی بیماری کے بارے میں وہ کہتی ہیںہر وقت افسردگی رہنے کے باعث میں یہاں دوا لینے آئی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کی سڑکیں فوج سے بھری ہوئی ہیں اور ذہن ڈپریشن سے جام ہے۔صاحبہ سے کچھ ہی فاصلے پر سری نگر کے لال بازار سے آنے والی 21سالہ نوشید بیٹھیں ہیں۔ اپنے نمبر کا انتظار کرنے والی نوشید کو ڈپریشن اور صدمے کی شکایت ہے۔ پیلے اداس چہرے کے ساتھ فرش کی طرف مسلسل دیکھتے ہوئے وہ کہتی ہیںمیں گریجویشن کر رہی ہوں لیکن میں یہ سوچتی رہتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں ہر 100میں سے 15خواتین ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ خواتین افسردگی کا شکار ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خواتین کا دائرہ نسبتا محدود ہے۔ اپنی پریشانی کو بتانے اور بانٹنے کے لیے ان کے پاس نسبتا راستے کم ہیں۔ اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہیں۔