پرینکا دوبے انڈیامیں بی بی سی ہندی سروس کی نمائندہ ہیںانہوں نے چندیوم قبل مقبوضہ کشمیرکے عوام کی کیفیات ،انکی صحت اور معاملات ومعمولات زندگی پر’’کشمیر گرانڈ رپورٹ ‘‘کے عنوان سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس سے اس امرکی تصدیق ہوجاتی ہے کہ مقبوضہ کشمیرپرڈپریشن اور دل و دماغ پر چھائی مایوسی کی چادرتنی ہوئی ہے۔اپنی اس تازہ رپورٹ میںوہ ر قم طرازہیں کہ ہسپتال میں چیک والے کشمیری لباس میں ایک 30سالہ شخص خاموشی سے سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے۔ اس نے سر پر اونی ٹوپی اور ہاتھوں دستانے بھی پہن رکھے ہیں اور اس کے ہاتھوں میں ڈپریشن کے علاج کی پرچی ہے جس پر اس کا نام لکھا ہوا ہے۔ تعارف کے بعد جب اس کا حال پوچھا تو انھوں نے آہستہ سے سر اٹھایا تو بڑی گہری آنکھیں اور غم میں ڈوبا ہوا اداس چہرہ نظر آیا۔’’یہ دیکھو، میری کیا حالت ہو گئی ہے،میں ڈپریشن میں ہوں‘‘۔میں نے آہستہ سے ایک بار پھر صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ اس بار اس نے کہا: کیا بتائوں؟ کہاں سے شروع کروں؟ چلیں آپ کو صرف کل رات کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ابھی جو رات گزار کر ہسپتال آیا ہوں۔ دس بجے قابض بھارتی فوج ہمارے علاقے میں آئی اور محاصرہ کر لیا۔ صبح کی نماز تک تمام مردوں کو کھڑا رکھا۔ پھر وہی تشدد،وہی تعذیب و تفتیش، وہی گالم گلوج اوروہی حراسمنیٹ جس کاہم برسوں سے شکارہیں۔ مقبوضہ وادی کشمیرمیں پھیلی اداسی کے حوالے سے پرینکا دوبے کہتی ہیں کہ اچانک اسی وقت کچھ مریضوں نے ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے کیمپس کا مرکزی دروازہ کھولا، اندر آنے والی سرد ہوا کے جھونکے سے ہم دونوں لرز گئے۔ باہر برف پڑ رہی تھی۔یہ سری نگر سے ایک گھنٹہ پر واقع پلوامہ ضلعے کا ایک سرکاری ہسپتال ہے۔ ہم ہسپتال کے چھوٹے سے ’’دماغی صحت مرکز‘‘میں موجود ہیں۔ وادی میں جاری اس برفیلی سردی میں بھی پلوامہ کے اس چھوٹے سے ذہنی صحت مرکز میں کشمیری مریضوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہے۔صبح دس بجے سے شروع ہونے والے او پی ڈی میں نو بجے ہی تقریبا 50پچاس سے زیادہ مریض قطار میں کھڑے ہیں۔ پرنیکاکہتی ہیں کہ میں اور راشد اب بھی مرکزی دروازے کے اندر بنچ پر بیٹھے ہی تھے۔ اس نے بتایاکہ میں بجلی کا کام کرتا ہوں۔ میں پلوامہ شہر میں رہتا ہوں، لیکن میرے گائوں کا نام وشبوک ہے۔ جب سے آرٹیکل 370کو ہٹایا گیا ہے، میرا کام بہت کم ہو گیا ہے۔ یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کا کام اور کاروبار ختم ہوا تو میرا کیونکر بچتا؟ پہلے دو ماہ تک تو کام مکمل طور پر بند رہا۔ میری تو عمر بھی کم ہے، مجھے تو ڈپریشن نہیں ہونی چاہیے تھی! لیکن اب ڈاکٹر کے پاس آیا ہوں کیونکہ میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔ سارا دن دل گھبراتا رہتا ہے۔ ڈرائونے خواب آتے ہیں اور یادداشت بھی ختم ہونے لگی ہے۔پلوامہ ضلعی ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ماجد شفیع کی او پی ڈی میں یہ ایک بہت مصروف اور یخ بستہ صبح ہے۔جب تک ڈاکٹر ماجد مریضوں کو دیکھتے ہیں میں ان کے ساتھ گفتگو کا انتظار کرتی ہوں۔ شدید ذہنی تنا ئوجیسے اداسی، افسردگی، خوفناک خواب آنا، نیند نہ آنا، پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر ’’پی ٹی ایس ڈی‘‘ پسینہ آنا، یاد داشت جانا اور خود کو الگ تھلگ اور تنہا محسوس کرنے جیسی کیفیات سے متاثر مریض ڈاکٹر ماجد کے سامنے اپنی شکایات کا پلندہ کھول رہے ہیں۔ ڈاکٹر ان کے مسائل کو ہمدردی اور صبر سے سن رہے ہیں۔ڈاکٹر ماجد کہتے ہیں کہ کشمیر 1989ء سے ہی ذہنی صحت کی ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جب بھی یہاں صورتحال خراب ہوئی ہے جیسے 2008ء ، 2010ء اور 2016ء کے مظاہرے یا اب آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد، اس طرح کے ہر بڑے اتار چڑھا ئوکے دوران تشدد اور تنائو میں اضافہ ہوجاتا ہے۔لوگوں کی نفسیات پر انھوں نے کہا: 'ایک عام کشمیری نے اس طرح اچانک آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کو اپنی شناخت اور شہریت پر حملہ کے طور پر لیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن اس کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دن میری او پی ڈی میں ڈیوٹی تھی لیکن اچانک ٹریفک کے ساتھ ساتھ فون کی سہولیات بند ہونے کی وجہ سے لوگ ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ جو اسپتال میں تھے ان کے چہروں پر اداسی تھی۔ پانچ اگست 2019ء کے بعد یہاں کے لوگ بہت دنوں تک مسکرا نہیں سکے۔ اس کے بعد میں نے جو سارے مریضوں کو ابتدائی طور پر دیکھا تھا انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے جیسے 'آگے کیا ہوگا، ہمارا مستقبل کیا ہے؟' ہر ایک گہرے صدمے میں تھا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ جب ٹریفک اور دیگر پابندیوں میں نرمی کی گئی اور مریضوں نے آنا شروع کیا تو ڈاکٹر ماجد کے اپنے او پی ڈی میں ہی آنے والے مریضوں کی تعداد میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہو گیا۔ پلوامہ شہر کے ایک مینٹل ہیلتھ سنٹر کے باہر 31سالہ شفق ابھی ڈاکٹر کے پاس سے نسخہ لے کر آئے ہیں۔ نام اور تصویر شائع نہ کرنے کی شرط پر وہ اپنی کہانی شیئر کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔پلوامہ کے گائوں چک پورہ کے رہائشی شفق کے بڑے بھائی مجاہدین کی صف میں شامل ہو گئے تھے اور شہیدہوگئے۔وہ سر جھکائے کہتے ہیں،یہاں کشمیر میں میری زندگی خود اس قسم کی مشکلات میں الجھ رہی کہ آج میں ڈپریشن کا شکار ہوں۔دراصل میرے بھائی نے اکتوبر 2017ء میں گھر چھوڑ دیا۔ وہ پندرہ ماہ تک مجاہدین کے ساتھ سرگرم تھا اور فروری 2019ء میں اسے مارا گیا تھا۔ اس وقت سے مجھے بھی ہر ہفتے اپنے گائوں کے قریب واقع آرمی کیمپ میں پوچھ گچھ کے لئے بلایا جانے لگا۔ میں جاتا ہوں، وہ سوال پوچھتے ہیں، میں جواب دیتا ہوں۔ مجاہدین کو تحفظ فراہم کرنے کے مقدمے بھی جاری ہیں اورمیں بھی ہر مہینے سماعت کے لیے جاتا ہوں۔میرے بھائی کے مجاہدبن جانے، شہیدہوجانے اور پھر عدالت سے پولیس سٹیشن کے چکر نے شفق کی زندگی کا محور بدل دیا ہے۔ وہ کہتے ہیںمیں اپنے خوابوں میں بھی انڈین آرمی افسر وںکے سوالوں کا جواب دیتا رہتا ہوں۔ نیند نہیں آتی۔ جب آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی دھماکا ہوگا اور پورا گھر مجھ پر ٹوٹ کر آ گرے گا اور میں مر جائوں گا۔ (جاری ہے)