لیگل فورم کے مطابق اس سال کے دوران سکیورٹی دستوں کا خصوصی نشانہ سیویلین جائیدادیں رہیں۔ بلڈوزروں کا استعمال یا اگر کسی مکان میں کسی عسکریت پسند کی موجودگی کا شک ہو، تو اس کو پوری طرح تباہ کرنا اس نئی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق جنگ زدہ علاقوں میں بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے اور جنیوا کنونشن کی کئی دفعات کے تحت سویلین جائیدادوں کو تحفظ حاصل ہے۔ حریت کانفرنس کے معروف لیڈر شبیر احمد شاہ ، جو خود جیل میں ہیں ‘کی رہائش گاہ کو سیل کردیا گیا۔ ان کے اہل خانہ کو دس دن کے نوٹس پر مکان خالی کرنے کیلئے کہا گیا۔ جماعت اسلامی ، جس پر پابندی لگائی گئی ہے، کی جائیدادں، جن میں اسکول ، دفاتر اور اسکے کئی لیڈروں کی رہائش گاہیں شامل ہیں، کو سیل کر نے کا عمل متواتر جاری ہے۔ اپریل میں قومی تفتیشی ایجنسی نے ایک اسکالر عبدالا اعلیٰ فاضلی کو گرفتار کرکے اس کے دس سال قبل ایک ویب سائٹ پر لکھے آرٹیکل کا حوالہ دیکر اس کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ ایک قابل احترام پروفیسر شیخ شوکت حسین کو یونیورسٹی سے بس اس لئے برطرف کیاگیا کیونکہ 2016میں انہوں نے دہلی میں ایک سیمینار میں شرکت کی تھی۔ جن دیگر اسکالروں کو نوکریوں سے نکالا گیا ان میں ڈاکٹر مبین احمد بٹ اور ڈاکٹر ماجد حسین قادری بھی شامل ہیں۔ حقوق انسانی کے ممتاز کارکنان خرم پرویز اور محمد احسن انتو کی گرفتاری سے یہ وارننگ دی گئی ہے کہ خطے میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو ڈاکومنٹ کرنے کی قیمت چکانی پڑے گی۔ بی بی سی کے مطابق ان لوگوں کو مثال بنا کر سب کو خاموش کرا دیا گیا ہے۔ایک خاتون نے اس ادارہ کو بتایا کہ ’’لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے تو وہ گرفتار ہو جاتا ہے۔ صرف کشمیر کے باہر نہیں بلکہ کشمیر کے اندر بھی کوئی خبر نہیں ملتی ہے ۔ ہم جو سانس لیتے ہیں اس تک میں خوف ہے۔‘‘ اس کے علاوہ لوگوں کی نقل حرکت پر غیرقانونی اور غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ جیسے کہ صحافت کا بین الاقوامی پلیڑز ایوارڈ جیتنے والی ثنا ارشاد مٹو کو ویزا اور ٹکٹ ہونے کے باوجود ملک سے باہر سفر کرنے سے روک دیا گیا۔کشمیر ٹائمز کی مدیر اور تجزیہ کار انورادھا بھسین کہتی ہے کہ ’’حکومت کی جانب سے نگرانی کی وجہ سے لوگ خاموش ہیں۔ حراست میںلیجانا، کیس فائل کرنا، فون پر ڈرانا، سمن جاری کرنا، جیسے اقدامات سے باقاعدہ ایک ڈر کا ماحول بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ کچھ نہیں بول پا رہے ہیں۔ ‘‘ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت یا ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی آرایس ایس کا ایجنڈا صرف خطے کی آبادیاتی ہیئت بدلنا نہیں ہے بلکہ اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور بے وقعت کرنا ہے۔ غیر ریاستی لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا حق اور ڈومیسائل دیا جا ریا ہے۔ مقامی سیاسی پارٹیوں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال سے پریشان سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی چیخ پڑی ہیں۔ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نام ایک خط میںانہوں نے لکھا ہے کہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر میں اعتماد کی کمی اوربیگانگی میں اضافہ ہوا ہے۔بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق اب بس صرف ان منتخب شہریوں کو عطا کیے جا رہے ہیں، جو حکومت کی صف میں شامل ہیں۔انہوں نے لکھا ہے کہ کشمیر کے ہر باشندے کے بنیادی حقوق من مانی طور پر معطل کیے گئے ہیں اور خطے کو الحاق کے وقت دی گئی آئینی ضمانتوں کو اچانک اور غیر آئینی طور پر منسوخ کر دیا گیا ہے۔ سینکڑوں نوجوان جموں و کشمیر سے باہر جیلوں میں بند ہیں۔ ان کی حالت نہایت خراب ہے ۔ فہد شاہ اور سجاد گل جیسے صحافیوں کو ایک سال سے زیادہ عرصے سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت قید رکھا گیا ہے۔ انہوں نے بھارتی عدلیہ کے رویہ کی بھی شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک عدلیہ کے ساتھ ان کے تجربے نے زیادہ اعتماد پیدا نہیں کیا۔’’میری بیٹی کی طرف سے 2019 میں دائر کردہ اپنے حبس بیجا کیس میں، سپریم کورٹ کو میری رہائی کا حکم دینے میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا جب کہ مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیا گیا تھا۔ایک اور مثال میری معمر والدہ کا پاسپورٹ ہے جسے حکومت نے من مانی طور پر روک رکھا ہے۔ ‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ بھارت کے سابق مرکزی وزیر داخلہ اور دوبار وزیر اعلیٰ رہ چکے مفتی محمد سعید کی بیوہ ہے۔ ’’جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہاں بھی، ہمیں تاریخ کے بعد تاریخ دی جاتی ہے۔میری بیٹی التجا کے علاوہ اور میرا پاسپورٹ بھی بغیر کسی واضح وجہ کے روک لیا گیا ہے۔ میں نے یہ مثالیں صرف اس حقیقت کو دلانے کے لیے پیش کی ہیں کہ اگر سابق وزیر اعلیٰ اور رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے میرے اپنے بنیادی حقوق کو اتنی آسانی سے معطل کیا جا سکتا ہے تو آپ کشمیر میں عام لوگوں کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘‘ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے 890 کے آس پاس ایسے مرکزی قانون ہیںجو اب خطے میں لاگو ہونا شروع ہو گئے ہیں۔بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے خاتمے سے پہلے صرف جموں و کشمیر کے رہائشی ہی ریاست میں جائیداد کی خرید و فروخت کر سکتے تھے۔ لیکن اب کوئی بھی بھارتی شہری یہاں جائیداد خرید سکتا ہے۔اسی طرح سے صرف مستقل رہائشی ہی جموں کشمیر میں ووٹ ڈال سکتے تھے یا یہاں امیدوار کے بطور انتخابات لڑ سکتے تھے۔ اب یہ پابندی ختم ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ اب کوئی بھی شخص جو کشمیر میں پچھلے 15 سال سے مقیم ہے، ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے۔ مرکزی حکومت کے حکام اور ان کے بچوں کے لیے یہ حد 10 سال ہے۔ جبکہ کسی طالب علم کو سات سال بعد ہی ڈومیسائل مل سکتا ہے۔یعنی اگر بھار ت کے کسی بھی خطے کا کوئی طالب علم کشمیر کے کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتا ہے، تو وہ بھی ڈومیسائل کا حقدار ہوگا۔ محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما موہت بھان کے مطابق2019میں مرکزی حکومت کے لئے گئے فیصلوں سے ابھی تک عوام صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ نظام کے تئیں اس قدر بے یقینی ہے کہ لوگ اب یہ ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی بات کی جاسکے ۔’’بھروسہ اس حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ غصہ اتنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انھیں کچلنا ہے تو کچلنے دو۔‘‘اس سب سے بھارتی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے، ایک بڑا سوال ہے۔ کشمیر میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ضرور ہیں لیکن بھارت اور کشمیریوں کے درمیان جو بھروسے اور اعتماد کی پہلے سے ہی کمی تھی وہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔کسی سیاسی عمل کی غیر موجودگی میں یا اعتماد بحال کئے بغیر اور عوام کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے سے قبرستان کی خاموشی ہی پیدا کی جاسکتی ہے، امن و امان کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔