کشمیر اور راگ پہاڑی جدا نہیں‘کشمیر اور گھنے درختوں کی ہریاول میں بہتی سورج کی روشنی‘سیب ‘ انار‘خوبانی‘ناشپاتی اور گلاب کے باغات۔کشمیر اور ابدی سکون آور خاموشی۔ دوسری تصویر۔ کشمیر اور تاریخ۔ کشمیر اور لاشیں۔ کشمیر اور بے بسی۔ معلوم نہیں کشمیریوں کو 5اگست سے رہائی کب ملے۔ تجزیہ آخر میں کیوں ؟پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے‘ پاکستان اور کشمیریوں نے بہت وقت ضائع کیا۔ سب سے بہترین موقع وہ تھا جب امریکہ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں ہم سے مدد لے رہا تھا۔ کشمیر پر زیادہ تر نقطہ ہائے نظر کشمیر کے باشندوں کے ذریعے سامنے آتا رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کا موقف ہمیشہ حکومت کی پالیسی کی صورت میں اجاگر ہوا۔ بہت ہوا تو یوم کشمیر یا اہم مواقع پر سرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام کر لیا جاتا ہے۔ لاہور میں کشمیر سے آئے مہاجرین کی بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ لوگ پچھلے دو سو سال میں سیاسی و معاشی طور پر دوسری برادریوں سے آگے نکلے ہیں۔ راولپنڈی کی کم از کم ایک تہائی آبادی ان خاندانوں پر مشتمل ہے جو کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے عوامی سطح پر کشمیریوں کی حمایت کے لئے پنڈی شہر کو مرکز مانا جاتا ہے۔ بھارت سے کیسے نمٹا جائے۔ یہ سوال وزیر اعظم آزاد کشمیر سے کریں تو وہ متعدد بار کہہ چکے کہ موجودہ پالیسی پر عمل جاری رہا تو کشمیر 700سال میں بھی آزاد نہ ہو سکے گا۔راجہ فاروق حیدر کا خیال ہے کہ بھارت صرف جنگ کی زبان سمجھتا ہے۔ پاکستان کے لئے کشمیر بہت اہم ہے‘ خون کا رشتہ‘ دین کا رشتہ اور پھر ہزاروں برس کی محبت کا رشتہ۔ کشمیر سے دستبرداری کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے پاکستان کو کئی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ آج کا پاکستان 1948ء کے پاکستان سے کمزور ہے۔ آج پاکستان کے قبائلی کشمیریوں کے شانہ بشانہ بھارتی افواج سے لڑنے نہیں جا سکتے۔ قانون پسندی اس وقت تکلیف دینے لگتی ہے جب ایک فریق اقوام متحدہ‘ انسانی حقوق کمشن‘ بین الاقوامی طاقتوں اور دوست ممالک کے کہنے پر برداشت اور تحمل سے کام لینے پر مجبور ہو مگر دوسرا سلامتی کونسل کی قرار دادوں‘عالمی اداروں کی رائے اور بین الاقوامی برادری کی اپیلوں کو بھی اہمیت نہ دیتا ہو۔ یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی زیادہ تر قیادت عوام کے جذبات سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے۔ چند ماہ قبل بزرگ حریت پسند سید علی گیلانی نے حریت کانفرنس کی سربراہی سے استعفیٰ دیا۔یہ استعفیٰ کشمیری رہنمائوں کے مایوس کن رویے پر ایک نہ جھکنے والے حریت پسند کا احتجاج تھا۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اپنی شکست دیکھ کر پلان بی پر عمل شروع کر دیا ہے۔ محاصرہ ‘ گرفتاریاں اور تشدد کر کے آخری دائو کھیلا گیا۔ جیت گئے تو پوبارہ ہار گئے تو خیر۔مقبوضہ کشمیر میں عوامی سطح پر یہ بات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت اچھا نہیں تو پاکستان کب اچھا ہے۔ پاکستان کی جمہوری اور معاشی ناکامیوں کو کشمیر کے لوگوں کے لئے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھارت نواز رہنمائوں فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی نظر بندی اور وقفے وقفے سے کشمیریوں کے حق میں بیانات ابھی تک لاک ڈائون کی مذمت تک محدود ہیں۔ ان دونوں خاندانوں نے بھارت سے آزادی کی ابھی تک کھل کر بات نہیں کی لیکن ذرائغ ابلاغ میں انہیں کشمیریوں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک کشمیری دوست کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کو بھارتی محاصرے کے خلاف عالمی اداروں سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک اور کشمیر بار کونسل کے صدر میاں عبدالقیوم کے کیسز بھارت کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر متنازع تسلیم کی گئی سرزمین کو بھارت جمہوریت اور معاشی ترقی کے نام پر جبراً اپنی کالونی بنانے کی فکر میں ہے۔ ہزاروں کشمیری آزادی کی حمایت پر جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے سینکڑوں کورونا سے متاثر ہوئے مگر انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔ کشمیری دانشور محمد رفیق ڈار کا کہنا ہے کہ امریکہ‘برطانیہ اور یورپ میں لاکھوں کشمیری آباد ہیں۔ یہ لوگ ابھی تک دستیاب مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ انہوں نے عالمی فیصلوں پر اثر انداز ہونے والے دانشوروں‘ سیاستدانوں اور سفارت کاروں سے مضبوط تعلق نہیں استوار کیا‘ عالمی اداروں کو بار بار کشمیریوں پر ہونے والے بھارتی جبر سے آگاہ نہیں کیا۔ پاکستان نے بھارتی اقدامات کی روک تھام کی خاطر ایک بڑی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ اس حکمت عملی میں یہ بات شامل ہے کہ پاکستان تنازعات کا پرامن طریقے سے حل چاہتا ہے‘ پاکستان خنجراب سے لے کر کوہالا تک ترقی کے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے’ نئے منصوبے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ایک نیا انفراسٹرکچر کھڑا کریں گے۔ نئی قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ آزاد کشمیر کے فکری کارکنوں‘ صحافیوں اور دانشوروں کو اس حکمت عملی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے نئے وار فیئر کا مقابلہ کیا جا سکے۔ آزاد کشمیر کے بہت سے علاقے دیکھ چکا ہوں۔ کئی دوست ہیں۔ اپنے ارشاد محمود‘ احسان الرحمان‘ اور عبدالرافع مسلسل کشمیر پر لکھ رہے ہیں۔ جناب افتخار گیلانی ہمارے مہربان ہیں۔اپنے حصے کے چراغ یہ لوگ جلائے ہوئے ہیں لیکن جبر اور بین الاقوامی ناانصافی کا اندھیرا کسی سورج کے طلوع ہونے سے چھٹے گا۔ مقبوضہ وادی کے مظلوموں کو باہر آنا ہو گا۔ دنیا لاک ڈائون کو نظر انداز کر سکتی ہے مگر مزاحمتی احتجاج کو چھپایا نہیں جا سکتا۔