مقبوضہ کشمیرمیں نافذ کالے قوانین میں سے ایک جسے پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)کانام دیاگیاہے کے تخلیق کارشیخ عبداللہ نے کبھی یہ نہیں سوچاہوگاکہ ایک دن ایسابھی آئے گاکہ اس کے بیٹافاروق عبداللہ اوراس کاپوتابھی زہرمیں بجھی اس تلوارکی زدمیں آئے گا۔جمعرات 6فروری 2020ء کونئی دلی کی طرف سے مقبوضہ کشمیرکے بھارت نوازسابق کٹھ پتلی وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اسکے بیٹے عمر عبداللہ پر خودانہی کے والداورداداشیخ عبداللہ کے ہاتھوںکے تخلیق کردہ کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) عائدکرکے انھیں بغیر عدالتی سماعت مزیدمدت کے لئے حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا ۔5 اگست 2019ء کو جموںوکشمیر کی ہندوستانی آئین میں دفعہ 370اور35اے کے تحت محض نام کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے اسے دہلی کے زیرِ انتظام دو خطوں میں تقسیم کیا تھا، جس کے بعد قدغنوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔آزادی کے لئے جدوجہدکرنے والی کشمیرکی لیڈرشپ اورپندرہ ہزارکارکنان کے ساتھ ساتھ بھارت نوازنیشنل کانفرنس اورپی ڈی پی کے تقریباََ40لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھاجن میں سے بیشتر کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، سمیت درجن بھر اب بھی حراست میں ہیں۔یہ گذشتہ سات دہائیوں کے دوران یہ پہلاموقع تھاکہ جب بھارت نوازوں کوحراست میں لیاگیا اسے قبل پچاس کی دہائی میںمحاذ رائے شماری کی تحریک کے دوران شیخ عبداللہ کو گرفتار کیا گیاتھا اور جونہی اسے رہاکر دیاگیا تووہ محاذ رائے شماری کی تحریک کوخیربادکہہ کر بھارت کے سامنے ہمیشہ ہمیش کے لئے ا س طرح سجدہ ریزہواکہ پھرمرتے دم تک کبھی اس چوکھٹ سے اٹھ نہ سکا۔ یہ شیخ عبداللہ ہی تھے کہ جنہوں نے غداری کرتے ہوئے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA) کوتخلیق کرکے جموں وکشمیر میں اس وقت نافذکردیاکہ جب پنڈت نہروکے زیرقیادت گانگریس کی حکومت میں انہیں22سال کی حراست سے چھوٹ دی گئی۔ واضح رہے شیخ عبداللہ کی حراست کوئی خوفناک معاملہ نہیں تھابلکہ وہ سرکاری گیسٹ ہائوسوں میں نظربندرہا اس نظربندی سے رہائی کے بعد اس نے1975میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے ساتھ ذلت آمیز اور شرمناک ایکارڈ کیا جسے ’’اندرا عبداللہ ایکارڈ‘‘ کانام دیاگیا تھا۔کاش شیخ عبداللہ کویہ علم ہوتاکہ ’’چاہ کن راچاہ درپیش‘‘ کے مصداق ایک وقت ایسابھی آسکتاہے کہ ان کے بچھائے ہوئے جال میں خودان کابیٹااوران کا پوتابھی پھنس جائیںگے ۔ شیخ عبداللہ نے اس کالے قانون کوکشمیریوں پراس لئے نافذکردیاتھاکہ اسے خوف لاحق تھاکہ جوتاریخ ساز غلطی وہ کربیٹھاتھاتوآج نہیں توکل اسلامیان کشمیرکی نسلیں جب ’’ اندراعبداللہ ایکارڈ‘‘ کی سزابھگتیں گی تووہ اسکے بیٹے اورپوتے کے خلاف سڑکوں پرآجائیں گے توپھرانہیں زیرکرنے کاآج ہی حل ڈھونڈ کررکھناہوگا۔ شیخ عبداللہ کواپنی زندگی میں بہت کم مخالفت کاسامناکرناپڑاجوآوازیں اٹھ بھی گئیں تووہ نحیف تھیں۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر،پیپلزلیگ ،الفتح وغیرہ کی صدائیںشیخ عبداللہ کے سامنے نہایت کمزورتھیں لیکن اسکے باوجودانہوں نے ان ناتواں آوازوں کودبانے اور اپنے سیاسی حریفوںکوکچلنے کے لئے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت انہیں جیلوں اورعقوبت خانوںمیں ٹھونسا انہیںاپنے ایک انتہائی ظالم پولیس آفیسرغلام قادرگاندربلی کے ذریعے سے ایسا ٹارچرکروایاجو ناقابل بیان ہے۔ گاندربلی کے تعذیب خانے کی داستانیں سن کر رونگٹے کھڑا ہو جاتے ہیں۔مثلاََگرم گرم آلو منہ میں ڈالنا، جسم پرگرم استری پھیرنا، لوہے کے راڈ کے ذریعے جسم کے نازک حصوں کو ناکارہ بنانے کے لئے شرمناک ہتھکنڈے استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ شیخ عبداللہ کا یہ ظالم پولیس آفیسرغلام قادر گاندربلی آخری وقت میں جسم کوکیڑے پڑے اسی حالت میں مرگیا۔شیخ عبداللہ اور اسکے طالم پولیس آفیسرگاندربلی کے ظلم وستم کے باعث کئی کشمیری حریت پسند اپنا گھروبار ترک کرکے آزادکشمیر اورپاکستان کی طرف ہجرت پرمجبورہوئے ان میں سے کچھ نے شادیاں کیں اورگھربسائے لیکن کچھ آنکھیں اپنے آبائی وطن کوتکتے تکتے پتھراگئیں اورانکی قبریں اورپھروہ مظفرآباد،راولپنڈی اورلاہورمیں بنیں۔ 1990ء میں جب شیخ عبداللہ کے گناہوں کاخمیازہ نوجوانان کشمیربھگتنے شروع ہوئے توگورنر راج میںپبلک سیفٹی ایکٹ(PSA) کالے قانون کابے دریغ اوربے تحاشہ استعمال شروع ہوا،اوراسکے تحت کشمیری مسلمان نوجوانوں کو اندھا دھندطریقے سے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا، بعد میں جب1996 ء میںشیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ نے بھارت کی غلامی کاحلف لیاتواس نے بھی اپنے والدکے نقش قدم پرچل کرکشمیرکے حریت پسندوں اور حق خودارادیت کی مانگ کرنے والے کشمیرکے مسلمان نوجوانوں کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA) کے تحت قیدخانوں اورتعذیب خانوں میںڈالااوراسکے بعداسکے بیٹے عمرعبداللہ بھی یہ شرمناک کھیل کھیلتا رہاہے،جبکہ دوسرے غدارمفتی سعیداسکی بیٹی محبوبہ اوربھی لگاتاراس کالے قانون کوکشمیریوں پرنافذکرتے رہے ہیں۔ پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)کے تحت بھارتی قابض فوج کسی بھی کشمیری مسلمان کو برسوں جیل میں نظر بند رکھ سکتی ہے۔ ابھی تک ہزاروں کشمیری اس بدنام زمانہ قانون کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، سینکڑوں کی جوانیاں تعذیب خانوں کی چار دیواریوں کے پیچھے ڈھل گئیں ، ان گنت ایسے بھی ہیں جو اس قانون کی مار سہتے سہتے مختلف ذہنی و جسمانی امراض کے شکار ہوچکے ہیں اور ایسے بھی سینکڑوں نام لیے جاسکتے ہیں جنہوں نے تعذیب خانوں میں ہی اپنی جان گنوا دی۔پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA)کے تحت نوے کی دہائی میں کسی بھی عمر کے شہری کو پولیس ڈوزیر کی بنیاد پر ڈی سی کے دستخطوں سے سیکورٹی کے لیے خطرہ قرار دے کر پہلے دو سال کے لیے جیل میں ٹھونس دیا جاتا تھا، پھر ان محسورین کے خلاف اس کالے قانون کا اطلاق سال در سال کردیا جاتا تھا۔ اس چکر میں بدنصیب قیدی کے لیے بار بار نئے نئے فرضی کیسوں کے لیے مقامی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ (جاری)