کشمیرمحاصرے کے پورے 3ماہ بیت چکے ہیں۔کوئی نہیں نظرآرہاکہ جوکشمیریوں کواس کڑے محاصرے سے نکال باہرلانے کی سعی کرے اورعزم باندھے۔اگرچہ بنیادی طورپر انسان ایک معاشرتی زندگی بسر کرتا ہے،مظلومین پررحم کھانا اس کی سرشت ہے ۔لیکن اکیسویں صدی کی بادصرصرنے سب ختم کردیا،ظلم وجبرکادوردورہ ہے اورانسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے ۔ پوری دنیاکثیرالنوع سانحات کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ عصرحاضرمیںانسانوں کے جمگھٹے میں انسانیت تلاش کرنااورظلم کی اس اندھیرنگری میں انصاف طلب کرنا گویا نمک کی کان سے مٹھاس تلاش کرنے کے مترادف ہے، کشمیرسے فلسطین تک نظردوڑایئے تولگ پتاجاتاہے کہ یہ دنیااب انسانیت سے خالی، غمگساری سے عاری اور ہمدردی سے بے نیاز ہے، درد دل اس کے پاس نہیں، غمخواری کا جذبہ مفقود ہے۔ کرفیولگاکراسلامیان کشمیر کوگھروں میں بندرکھناکوئی معمولی ساالمیہ نہیں جواس المیے پرمجرمانہ خاموشی اختیارکربیٹھے ہیں انہیں اس صورتحال کاسامناہوتولگ پتہ جائے گاکہ اکیسوںصدی میں رہ کر(Dark Ages)کی طرح گزر بسر کرنا کیسی حیوانیت ہے؟ اور اپنوں کے درمیان رہ کر بھی اپنوں کے حال احوال سے آگہی اورمیل ملاپ نہ ہوناکیساکرب ہوتا ہے؟ صرف لفظ درد کو پڑھ پڑھ کر درد کا احساس نہیں ہوتا درد کا احساس تب ہوتا ہے کہ جب خود کے زخم بھی ہرے ہوں۔ دوسروں کے سانحات کااحساس اسی کوہوتاہے کہ جوخودکسی سانحے کاشکارہو۔انسان جب تک خود زخم رسیدہ نہ ہو،خوددرد میں مبتلا نہ ہوتو اسے دوسروں کے درد کا احساس نہیں ہوتا، اپنا درد اوراپنے دل یاجسم پر لگازخم تکلیف دیتا ہے، مضطرب بنائے رکھتاہے ،جگرپرآراچل جاتاہے ،سینہ چھلنی کرتا ہے، وہ زخم دراصل ایک کھلا ہوا دروازہ بن جاتا ہے جسے دل کادروازہ کہاجاتاہے۔اس دوروازے کے کھل جانے سے دل کی دنیامنور جاتی ہے اورپھریہ دل جذبہ ترحم اور انسانیت سے لبالب ہوجاتا ہے،تبھی کسی اور کا زخم بھی اس کی نگاہ قلب دیکھ پاتی ہے۔ اپنا غم ہلکا کرتے ہوئے وہ دوسروں کیلئے مداوا بن سکتا ہے، وہ خود دوا اور تشفی کا ذریعہ ہوجاتا ہے، زخم رسیدہ لوگ اس سے تسکین پاتے ہیں، اس کی زبان میں اپنے درد کا بیان پاتے ہیں، اس کے دل میں اپنا سوز دل پاتے ہیں، یوں گونگے کو بھی زبان مل جاتی ہے، زخم اورگھائو کے دہانے کھل کر سامنے آجاتے ہیں، پھر یہی اس کا سامان، سرمایہ اور اثاثہ کل بن جاتا ہے۔ عصرحاضرمیں انسانیت کی ساری اقدار بدل چکی ہیں، جس طرح سانپ ایک مدت پر اپنی کینچلی چھوڑ دیتا ہے اور نئی کینچلی کے ساتھ رونما ہوتا ہے، اسی طرح انسان بھی اپنی کینچلی چھوڑ کر کسی اور ہی کھال میں ظاہر ہو چکا ہے۔چاردانگ عالم مادیت کے بتوں کی پوری طرح پرستش جاری ہے، چہارسو خود غرضی اور ظلم کاراج ہے۔انصاف کی قندیلوں سے روشنیاں بجھ رہی ہیں، جہاں کومنورکرنے والے آفتاب ڈوب رہے ہیں، تلاش راہ میں ممدثابت ہونے والے ستاروں کی جگمگاہٹ کافور ہورہی ہے، رات کے سناٹوں کی مشعلیں ماند پڑرہی ہیں ، اندھیرا گہراتا جارہا ہے، تاریکی پر تاریکی کا منظر اس قدرگھنااور ہولناک ہوتا جاتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا، دل و دماغ صدمے میں ہیں۔انسانیت کے سمندرنے مدوجزرکی حرکیات ترک کردی ہیں اوراس میں اب ایسی موجوں کی تلاطم ناپید ہیں جوطوفان برپاکرسکے ، اس کی لہروں پرایسا جمود طاری ہوچکاہے جس نے اپنی فطرت بھی بدل ڈالی ہے۔ اس صورتحال نے ایک ایسے المیے کوجنم دیاکہ جس کی انتہا نہیں، مظلومین کے حال بدکی کوئی پرواہ نہیں، حقوق انسانی کارونادھونا بس ایک ڈھونگ اورڈرامہ ہے اوراس ڈھونگ اورڈرامہ کے رچانے سے اصل اوربنیادی حق دلانے کے فریضے سے منحرف ہونا مطلوب ومقصود ہے۔ فریب ،دجل اورعہدشکنی کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں، کشمیر کے دل دوز اور جاں سوز مظالم بدیہہ حقیقت بن کر سامنے آرہے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی طرف سے شوراٹھانے کے باوجودبھی عالمی چوہدریوں میں سے صاف گوئی کے ساتھ کوئی بول نہیں رہاہے ۔دراصل عہدوں اورمسندوں پربیٹھے خودسفاک ہیںوہ کیابولیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کوئی درد محسوس ہوپارہاہے اورنہ ہی کسی عالمی فورم پرکوئی گرجدارصدا بلندہورہی ہے۔ بی بی سی اور الجزیرہ کیمرے کے ذریعے ایسی اندوہناک صورتحال سامنے لارہے ہیں کہ جن سے روح کانپ جاتی ہے، اور تاریخ انسانیت کا عظیم سانحہ سامنے آتا ہے کہ کس طرح ارض کشمیر کو جیل خانہ بنا دیا گیا ، جس میں80لاکھ سے زائد انسانی آبادی کو مقیدکردیاگیا، 80 لاکھ لوگوں پر جن میں خواتین ،بچے اوربوڑھے شامل ہے10 لاکھ فوجی اہلکاروں کے پہرے بٹھادئے گئے ہیں، جہاں عام آبادی نظر آئے یا نہ آئے خاکی رنگ ضرور نظر آجاتاہے، بچوں کے کھلونے نظر آئیں یا نہ آئیں لیکن ہتھیار کی نکیلیں ،فوجی بوٹوں کی دھمک اوربے حدوحساب جارحیت دیکھے جاسکتے ہیں۔ جو نگاہیں ظلم کو ظلم کے طورپر نہیں دیکھ پاتیں، جنہیں لٹی پٹی انسانیت نہیں دکھائی دیتی،جن کی زبانیں بڑی بڑی باتیں بولتی ہیں مظلومین کی صورتحال پروہ اس قدرگنگ ہوجاتی ہیں کہ ان کے حق میں ایک لفظ بھی بول نہیں سکتی ۔ بلکہ اس کے علیٰ الرغم مظلومین کے رقص بسمل پربغلیں بجا رہے ہیں، منطقی دلیلیں دے رہے ہیں، ستم رسیدگان کی آہیں کچل رہے ہیںیہ کھلی فرعونیت ہے۔اسی فرعونیت کی کرشمہ سازی ہے کہ زخم پر زخم لگتے گئے اور زخم سلنے کے بجائے کھلتے اور رستے چلے گئے۔کاش دنیابھی کشمیرکے چناروں میں پائے جانے والی تپش کاادراک رکھتی ہو ، اس نخل تمنا کے اجڑ جانے، گلستاں کے برباد ہوجانے اور دل و جگر کے کٹ جانے پربے چین اورمضطرب ہو، تو یقینا کشمیرکی گتھی سلجھ سکتی ہے۔ عجب حال ہے کہ عالمی قوتوں میں سے آج تک کشمیر مسلمانوں کے صدائے درد پرکسی نے کان نہیں دھرا۔ کسی نے غم محسوس کیا نہ اشک محسوس کئے۔اس کی وجہ ان کا خاص مزاج اوردورخی پالیسی ہے ؛ کشمیرمیں بہتے ہوئے خون کے دھارا روکنے کے لئے کوئی سامنے نہیں آرہااور مرتے انسانوںکوبچانے کے لئے کوئی کھڑانہیں ہورہا یہ اس بات کوالم نشرح بناتاہے کہ عالمی چوہدریوں میں انسانیت کو سمجھنے والا کوئی موجود نہیں؟ اے دل تمام نفع ہے ڈالرکا کاروبار جانوں کا زیاں ہو سو ایسا زیاں نہیں