بھارت چاہتاہے کہ ا سلامیان کشمیرکوصفحہ ہستی سے مٹادے ۔یہی وجہ ہے کہ قابض بھارتی فوج اپنے جبری کنٹرول کوقائم رکھنے کے لئے کشمیرمیں بڑے پیمانے پرگرفتاریاں کررہی ہے اوراس آپریشن میںکم عمربچوں کوبھی نہیں بخشاجاتا۔کالے قوانین کے تحت بڑے پیمانے پربچوں،بزرگوں جوانوں کوگرفتارکیا جارہا ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت سرچڑھ کربول رہی ہے کہ کشمیری مسلمانوں میں بھارت کے سامنے کوئی بانکپن نہیں اورکشمیربھارت کے لئے قہروغضب کاآتش فشاں بناہواہے۔بھارت سے آزادی اورپاکستان سے الحاق کے حوالے سے ملت اسلامیہ کے ہرمتنفس کے جذبات اوراحساسات کے مدوجزریکساں ہیں۔مقبوضہ کشمیرکابچہ بچہ بھارت سے نجات ’’آزادی‘‘ مانگتاہے اورانکی جبیں ہمت پر شکن تک نہ آئی۔اہل کشمیرکی رزمیہ زندگی پرعلامہ اقبال کا فرمان’’ہوتاہے جادہ پیماں پھریہ کارواں ہمارا‘‘پوری طرح صادق آتاہے۔ تصور کریں کہ ماں اور باپ کے سامنے جب ان کے نوجوان لڑکے کو تاریک شب یاہنگام سحر کو اس کے بستر سے گھسیٹ کر لے جایا جاتا ہے توانکے غم واندوہ کی کیفیت کیاہوگی ۔ بڑے پیمانے پراس پکڑدھکڑکا مقصد مقبوضہ جموںوکشمیر کو ظلم اور بربریت کے ذریعے قابو میں رکھنا ہے۔ خاص طور پر بچوں کو، اس طرح کے اقدامات سے بالآخر پوری نسل ہی متاثر ہوتی ہے۔بھارت کے مرتب کردہ انسانیت سوزکالے قوانین قابض بھارتی فوج کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ کسی کو بغیر کسی مقدمے یا ٹرائل کے ہی گرفتار کرلے۔ اس گرفتاری کے لئے وکیل اورنہ ہی کوئی دلیل چلتی ہے بلکہ اسے صرف اورصرف کشمیری مسلمانوں کوخوفزدہ کرنابھارت کامقصودومطلوب ہے ۔واضح رہے کہ 5اگست سے تادم تحریر ایک ماہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے اس دوران قابض بھارتی فوج نے پندراں ہزارکشمیری مسلمان گرفتاکئے ہیں جن میںزیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے، ان ہزاروںگرفتار کشمیری نوجوانوں پر بدترین تشددکیا جارہا ہے۔ لیکن تماشائی مبصرکی طرح خاموشی کی چادراوڑھے ہوئے مہربلب مجسمے کی طرح ساکت وصامت دنیاکا طرزعمل صریحاََ مجرمانہ ہے۔ 5اگست 2019ء کے بعد سے آج ایک ماہ چھ دن بیت چکے ہیں اوراس عرصے کے دوران15 ہزار کشمیری مسلمان گرفتار کیے جا چکے ہیں،جن میں 13سال کے بچے بھی شامل ہیں۔13سالہ فرحان اور اس کے 3دوستوں سمیت سینکڑوں بچوںکو گرفتاربھی کیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اسے رپورٹ کیاہے۔اخبار کا کہنا ہے کہ بچوں کی گرفتاری پر سوال پر بھارتی وزارت داخلہ نے کوئی جواب نہیں دیا،جبکہ مودی کے دعوے کے بر عکس مقبوضہ کشمیر ایک ماہ سے مکمل بلیک آئوٹ کا شکار ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ بھارتی اقدامات سے مقبوضہ وادی میں خوف اور غصے کی فضا ہے، یو این انسانی حقوق کے نمائندوں نے صورتحال کو پریشان کن قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے گئے کشمیریوں کو بھارت کی مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی ایسی رپورٹس سامنے آچکی ہیں جن میں مبرہن طورپربتایا گیاکہ کشمیر میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو عام حراست اور جیل میں رکھا جاتا ہے اورکم سن بچوں کی گرفتاری کا سلسلہ تھمنے کے بجائے بدستورجاری ہے۔ گیارہ سالہ محسن اور تیرہ سالہ برہان نے دہشت زدہ لہجہ میں کہا کہ انہیںبہت مارا،پیٹاگیا، کپڑے پھاڑے گئے اورننگی گالیاں دی گئیں۔ محسن کی بلکتی ماں نے سوال کیا: کون کہتا ہے یہاں حالات ٹھیک ہیں، کچھ ٹھیک نہیں۔ گھروں میں گھس کر معصوم بچوں کو گرفتار کرتے ہیں، کیا یہی ٹھیک ہے۔ بچوں کی یہ گرفتاریاں ایک ایسے وقت ہو رہی ہیں جب مودی حکومت نے 5اگست 2019ء ہفتے کوکشمیرمیں کرفیو نافذکردیا۔ اٹھارہ سال سے کم سینکڑوں بچے بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ قابض گورنرانتظامیہ 18برس سے کم عمران بچوں کویہ کہتے ہوئے بالغ تصور کرتی ہے کہ’’ یہ بچے ہماری فوج پر پتھر پھینکتے ہیں اور بھارت مخالف اورپاکستان کے حق میں نعرے بازی کرتے ہیں‘‘۔ دریں اثنا ء حقوق انسانی کے عالمی اداروں نے احتجاجی مہم شروع کی ہے جو اٹھارہ سال سے کم عمر کے کشمیری بچوں کو قیدخانوں میں رکھنے کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ پوری دنیا میں اٹھارہ سال سے کم عمربچے پرکوئی قانونی گرفت نہیںہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیرمیں ہونے والے احتجاجی مظاہروںکے دوران قابض فوج اکثر ویڈیو ریکارڑنگ کرتی ہے اور بعد میں شناخت کرکے انہیںگرفتار کیاجاتا ہے۔ممکنہ حدتک عالمی میڈیا ایک مہینے سے مقبوضہ کشمیرمیں کرفیو،لاک ڈائون اورگرفتاریاں دکھا رہا ہے،حالانکہ یہ بھارتی ظلم وجبر کاعشروعشیربھی نہیں۔