مکرمی !پانچ اگست کے بھارتی یکطرفہ اقدام کے بعد مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ سے زائد کشمیری عملا قیدی بن چکے ہیں،خطے کے امن کو دائو پر لگایا جارہا ہے۔ بھارت نے پوری کوشش کی کہ معاملہ سلامتی کونسل میں زیر بحث نہ لایا جا سکے لیکن پچاس سال بعد پاکستان اس مسئلے کو سلامتی کونسل لے گیا اور موجودہ حکومت کی کوششوں سے کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل میں دوسری بار اور امریکی کانگرس میں بھی دو بار زیر بحث آیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں میں ڈیووس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کشمیر کا تنازعہ دوبارہ اٹھایا،وزیر اعظم نے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر پر بات کی اور واضح کیا کہ جب دو نیوکلیئر پاورز آمنے سامنے ہوں گی تو اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی۔وزیر اعظم نے دوٹوک بات کی کہ دو جوہری طاقتوں کے مابین جنگ کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑیگا۔پاکستان کی پالیسی یہی ہے کہ ہم کشمیری عوام کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد جاری رکھیں گے جب تک مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہو جاتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر وپاکستان کا ہر فرد کشمیریوں کے دکھ درد کو محسوس کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق اپنے حصے کا کردار ادا کرے، عالمی برادری نے بھارت انتہا پسندانہ اقدامات کا نوٹس لیا ہے چین کی طرف سے سلامتی کونسل کے اجلاس کا انعقاد بہت مثبت پیشرفت ہے اقوام متحدہ کوچاہیے کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ خطے میں امن کا قیام ممکن ہو۔ (مہر اقبال انجم)