کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار 2003ء اور پھر 2016ء میں بھارت کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی۔ مگر ریاستی حکومتوں نے اس پر سخت رخ اپنا کر اسکو رد کردیا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اسوقت کے مرکزی وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے 2003ء میں تجویز دی تھی کہ کشمیر زبان کیلئے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کیلئے ایوارڈ وغیرہ تفویض کئے جائیں۔ ان کے مطابق کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائیگا۔ سوال ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم پھرصرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟ وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، کہ چونکہ بیشتر کشمیری پنڈت پچھلے تیس سالوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے نا آشنا ہے۔ اسلئے انکی سہولیت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میٹنگ میں بہر حال مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے مرلی منوہر جوشی کو قائل کرالیا کہ ان کے فیصلہ سے پچھلے 600سالوں سے وجود میں آیا کشمیر زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائیگا۔ مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں ، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری زبان میں 16حروف علت یا واولز او ر 35حروف صحیح ہیںنیز چھ ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف ، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔مودی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کیلئے ایک یاداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دئے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں1500سے 2000سال قدیم ہوں۔ اسکے علاوہ اسکا ادب قیمتی ورثہ کے زمرے میں آتا ہو۔ نیز اسکا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشئر زبان بلکل فٹ بیٹھتی تھی، اسلئے خیال تھا کہ یہ عرضداشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائیگی۔ عرضداشت میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے سورس بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ خیر اس عرضداشت پر مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیئے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کیلئے اسکا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا۔ کلاسک زبان قرار دئے جانے کے فائدے یہ ہیں کہ ہر سال دو اہم ایوارڈ ان کے فروغ اور ان کے اسکالروں کو دئے جاتے ہیں۔ نیز ان کی ترویج کیلئے ایک اعلیٰ ریسرچ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے چند یونیورسٹیز میں چیرز کو منظوری دینا شامل ہے۔ آخر بھارتی حکومت کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کیوں مصر ہے؟ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد ، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہوئے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لئے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کیلئے زبان کیلئے کفن بنا جا رہا ہے۔ پچھلے سات سو سالوں میں علمدار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم ، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ ، وغیرہ ، غرض سبھی نے تو نستعلیق کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر اور وادی چناب میں 6.8ملین افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ 30ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان گردانتے ہیں۔ علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں مرازی(جنوبی کشمیر) کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن ) ہیں۔ جرمنی کی لیپزیگ یونیورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوںکے مطابق اسکا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اسلئے لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ گو کہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔ کشمیری وازہ وان یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اسکا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے ۔پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو اسکا نوٹس لیکر کشمیری زبان و ثقافت کے بچائوکی تدبیریں کرنی چاہئیں۔ کم سے کم یونیسکو کے ذمہ داروں کو باور کرائیں کہ ایک زندہ قوم سے اس کی ثقافت بزور طاقت چھینی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کی اجاگر کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی شدید ضرورت ہے۔ ہوسکے تو دنیا کے مختلف شہروں میں کشمیری ثقافت، آرٹ، فن تعمیر و زبان کی نمائش کا اہتمام کیا جائے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو بے رحم تاریخ پاکستان اور آزاد کشمیر کے حکمرانوں کو بھی یقیناً معاف نہیں کریگی۔ باد صبا اگر بہ جنیوا گذر کنی، حرفی ز ما بہ مجلس اقوام باز گوی دہقان و کشت و جوی و خیابان فروختند قومی فروختند و چہ ارزان فروختند (ختم شد)