جنوبی کشمیرکے ضلع پلوامہ کے اونتی پورہ علاقے میں بھارتی فوج کی کانوائے پر حملے کے بعدمقبوضہ ریاست کے ہندواکٹریتی علاقے جموں ڈویژن اور بھارتی ریاستوں میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ اورکشمیری تاجر ہندئووں کے نشانے پرہیں۔ گزشتہ روز جموں ڈویژن میں ہندو دہشتگردوں کی پرتشدد کارروائیوں اور بلوائی حملوںمیںمسلمانوں کی 90کے قریب گاڑیوں کو نذر آتش کیاگیا۔ جن میں سے 40 گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں ۔جرم کوچھپانے کے لئے رات گئے پولیس کی طرف سے بھسم شدہ گاڑیوں کو اٹھاکر پولیس لائنز لاکر جمع کیا گیا۔بعد گزشتہ گزشتہ روز ان گاڑیں کو کرینوں کے ذریعے سے اٹھاکر پولیس لائنز گلشن گرائونڈ میں جمع کر دیا گیا۔ جمعہ15فروری کوجموں کے مختلف علاقوں میں ہندو انتہاپسندوںنے جموں شہر کے جانی پور علاقے میں وادی کشمیرسے تعلق رکھنے والے مسلمانوںکے مکانات اوررہائشی کوارٹروں پر متعدد مرتبہ حملے کئے۔ تباہی کے شکار علاقوں گوجر نگر ، پریم نگر ، جوگی گیٹ ، وزارت روڑ ، تالاب کھٹیکاں میں کرفیو نافذ کیا گیا۔ جموں شہر کے جانی پور علاقے میںمسلمانوں پر ہندوں غنڈوںکے دوران جھڑپوں میںدرجن بھرمسلمان زخمی ہوئے ۔ ہندو بلوائیوں کی طرف سے کی گئی کھلے عام توڑ پھوڑ اور تشدد کے واقعات سے خوف زدہ ہوکر 2ہزار سے زائد مسلمان مردوزن مختلف علاقوں سے بھاگ کر جموں کے بٹھنڈی علاقے میں پناہ لینے پرمجبور ہوئے ہیں جہاں انہیں مکہ مسجد میں ٹھہرایاگیاہے ۔ان میں 700 سے زائدوہ کشمیری مردوزن اور بچے بھی شامل ہیں جوبھارت کی ریاست اترپردیش سے واپس آ رہے تھے ،ان کی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے گئے اور خواتین کو حراساں کیاگیا۔بٹھنڈی کو محفوظ علاقہ سمجھتے ہوئے جموں کے دیگر علاقوںکے مسلمان بھی وہیں منتقل ہورہے ہیں۔مسجد کمیٹی کے ایک رکن نے بتایاکہ یہاں آنے والے سبھی افرادکیلئے انتظامات کئے گئے ہیں اور لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں مقیم کشمیر، راجوری، پونچھ ، ڈوڈہ ، کشتواڑ او ردیگر علاقوں کے لو گ بھی انہیں مدد کر رہے ہیں اوردو جگہ لنگر چل رہا ہے ۔دریں اثنا معلوم ہوا ہے ایک مقامی بکروال نے ان پناہ گزینوں کی مدد کیلئے 7لاکھ روپے دیئے ہیں ۔ ادھرانبالہ پنجاب میں 200کشمیری طلبہ کو کرایہ کے مکانوں سے بے دخل کیا گیا ہے،جس کے باعث کشمیری طلبہ نے یونیورسٹی ہوسٹل میں پناہ لی ہے۔ مقامی ہندئووں نے لوڈ اسپیکروں پر اعلان کیا کہ کشمیری طلبہ کرائے پرلئے گئے ہمارے مکانات فوری طورپر خالی کریں،اور اگروہ ایسا نہیں کرتے تو ان کاساراسامان سڑک پر پھینکا جائے گا اور انہیں ہرحال میں کرائے کے گھروں سے بے دخل کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعدکشمیری طلبہ نے کرائے کے مکانات خالی کردیئے اوروہ یونیورسٹی ہوسٹل میں آئے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی میں قریب 120 کشمیری طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ انبالہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں قریب1200 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ادھے پور راجستھان اورمیوات ہریانہ میں بھی کشمیری تاجروں اور طلبہ کو سخت ترین دشواریوں کا سامنا ہے۔انہیں کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر ہریانہ چھوڑ دیں۔ہماچل پردیش کے کانگڑا ضلع میں کشمیری تاجروں اور طلبہ کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ ہماچل پردیش کے شملہ شہر میں کشمیری تاجروں کو چن چن کر کرایہ کے مکانوں سے بے دخل کیا گیا اور انکے ہاتھوں میںبھارتی جھنڈا تھما کر ان سے پورے شہر میں کشمیری مردہ باد، پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے گئے۔ادھر پٹنہ بہار میں کشمیری آرٹس اینڈ کرافٹس میلہ مارکیٹ میں کشمیریوں کے قریب 50 دکانوں پرہندوغنڈوں حملہ کیا گیا جس کے دوران انکا مال دکانوں سے باہر پھینکا گیا اور انہیں بہار سے 24 گھنٹوں کے اندراندرچلے جانے کی لئے کہا گیا۔اس مارکیٹ میں کشمیریوں کے بینر اور ہورڈنگس بھی تہس نہس کی گئیں۔اس دوران دہلی میں موجودکشمیریوں کو بھی خوف زدہ کرنے کے اطلاعات ہیں۔دہلی کے جن علاقوں میں کشمیری تاجر اور طلبہ مکانوں میں کرائے پر ہیں ان مکانات پررات گئے پتھربرسائے جا رہے اور انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں کہ وہ کرائے کے گھر خالی کریں۔ بصورت دیگران کے ساتھ سختی سے نمٹ لیاجائے گا۔ جموں اوربھارتی ریاستوں میں بے بس اور نہتے کشمیری مسلمانوں کے خلاف بلوائیوں کی انسانیت سوز کارروائیوںکے خلاف جب یہ سطورحوالہ قلم کر رہاہوں سرینگرمیں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور کشمیر بند منایا جا رہا ہے۔ وادی کشمیر کے مسلمانوں کاکہناہے کہ جس طرح ہندو بلوائیوں نے جموں کے اندر مسلمانوں پر زیادتی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کیا ہے اور بھارت کی ریاستوں میں کشمیری مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے وہ نہ صرف نہایت ہی قابل تشویشناک معاملہ ہے بلکہ اس سے کسی بہت ہی بڑے فتنے کی بو بھی آتی ہے جس فتنے کا مقصد پورے جموں سے مسلمانوںکیلئے جموں کے دروازے بند کرنا ہوسکتا ہے ۔ کشمیری مسلمانوں کا موقف ہے کہ جموں میںکشمیری مسلمانوں پر ہندوئوں کے حملوں اوران کے املاک کو نقصان پہنچانے کی کارروائیاں ایک سوچے سمجھے ناپاک منصوبے کاحصہ ہے۔ تاہم گجرات ماڈل کی کاروائیاں جموں کشمیر میں کامیاب ہوسکتی ہیں اور نہ ہی جموںوکشمیرکے مسلمان ایک دوسرے کوہندئووں کے رحم وکرم پرچھوڑ سکتے ہیں۔ وہ ہرحال میں ایک دوسرے کاتحفظ کرنے کوایمانی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی حفاظت کیلئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیکر شانہ بشانہ چلیں گے۔ واضح رہے کہ جموں ڈویژن میںہندو بلوائیوں کی جانب سے کشمیریوں اور جموں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور انکی املاک کو نقصان پہنچانے کامنصوبہ بہت پہلے ترتیب دیاجاچکاہے اوراس کا ٹھیکہ آر ایس ایس اور اسکے ذیلی جھتوں کو سپرد کیا گیا ہے تاکہ وہ معمولی بہانوں کی آڑ میں پورے جموں ڈویژن میں 1947ء جیسی صورتحال پیداکرکے جموں کو پھر ایک بار مسلمانوں سے خالی کرا یا جائے ۔