پاکستان کاپرچم لہرانے پربھارتی قابض اورسفاک فوج سے گولی کھانے والے اورسبزہلالی پرچم کواپناکفن بنانے والے کشمیری مسلمانوں ’’کشمیری پاکستانیوں‘‘ کی عملی مدد کی جتنی آج ضرورت ہے اس سے قبل نہیں تھی۔آج کشمیری مسلمانوںکی عظیم قربانیوں کادفاع کرنے اوران کاخون رائیگاں نہ ہونے اوراس کی سودابازی نہ کرنے کاوقت آن پہنچاہے ۔آج افواج پاکستان کے ترجمان جنرل آصف غفورکے اس وعدے پرعمل کرنے کاوقت آچکاہے کہ جس میں انہوں نے صاف صاف کہہ دیاکہ کشمیرہمارے خون میں دوڑ رہاہے ۔گرآج پاکستان نے کشمیری مسلمانوں کوبھارتی رحم وکرم پرچھوڑ دیاتوکشمیریوں کے ساتھ بدترین غداری ہوگی۔ 5اگست سوموارکوبھارت کے وزیرداخلہ امت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھامیں مقبوضہ جموںوکشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کااعلان کرتے ہوئے کہاکہ صدارتی آرڈرکے ذریعے سے اس آرٹیکل کوبیک جنبش قلم ختم کردیاہے اورکہاکہ اس آرڈرپر بھارتی صدر پہلے ہی دستخط کر چکے ہیں۔ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370جموں و کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کچھ ایسی ضمانتیں دیتا تھاجس سے صاف طورپرپتہ چل رہاتھاکہ کشمیربھارت کااٹوٹ انگ ہے اورنہ ہی وہ بھارت کی اترپردیش،آسام ،مدھیاپردیش یادیگربھارتی ریاستوں کی طرح بھارت کی کوئی حتمی ریاست ۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام نے فیصلہ کررکھاہے کہ بھارت کے اس فیصلے کوہرگزقبول نہیں کیاجائے گاحریت کانفرنس نے بھارتی فیصلے کوجوتے کی نوک پررکھ کراسے مستردکردیاجبکہ بھارت نوازدوخاندانوں شیخ عبداللہ اورمفتی خاندان اوران کے دم چھلے جودفعہ 370کے گھوڑے پرسوارہوکربھارتی مفادات کے لئے کام کرتے چلے آئے ہیںنے بھی دفعہ 370کے خاتمے کے فیصلے کو قبول اورتسلیم نہ کرنے کااعلان کردیاہے۔ بغائردیکھاجائے تو انڈیا کی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370کو یک طرفہ طور پر ختم کرتے ہوئے عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیردیںاب اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام سے انڈیا جموں و کشمیر کواپنی پشتنی ریاست قراردے گااور وہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی تناسب کوتبدیل کرکے اسے ہندواکثریتی ریاست بنادے گا۔س اقدام کے برصغیر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ آرٹیکل 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے شہریوں کے لیے جائیداد اور شہریت کے قوانین جوبھارتی ریاستوں سے یکسرمختلف تھے لیکن اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعداب انڈیا کا کوئی بھی شہری یا انڈین کمپنیاں چاہے وہ نجی ہوں یا سرکاری ریاست جموں و کشمیر میں جائیداد خرید سکتی ہیںاور سرکاری ملازمتوں پر بھی بھارتی باشندوں کا حق جتایاجائے گا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اب دہلی حکومت جموںوکشمیرمیں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے جبکہ آرٹیکل 370 کی موجودگی میںدہلی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت کے اس حماقتی اقدام سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں صورتِ حال انتہائی کشیدہ بنی ہوئی تھی اور وادی کی گلیوں اورکوچوں میں ہزاروں اضافی فوجی اہلکارگشت کررہے ہیں ۔قابض بھارتی فوج نے سرینگراور تمام ضلعی مقامات میںکرفیو لگا کر کشمیری مسلمانوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے اور وادی مکمل طورپربند کر دی گئی ہے۔ پوری وادی کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ کشمیری مسلمانوںکی حفاظتی دیوار گر گئی تو وہ فلسطینیوں کی طرح بے وطن کردیئے گئے کیونکہ اب کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں بس جائیں گے جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ بر صغیرکی تقسیم تک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش پارلیمنٹ کے پاس کردہ ایکٹ 1935 ء کے تحت چلایا جارہا تھا، جس کا براہ راست اطلاق خطے کی ان ریاستوں پر نہیں ہوتا تھاجونیم خودمختارتھیں،ان ریاستوں میں جموں وکشمیر بھی شامل ہے، واضح رہے کہ یہ ریاستیں اس لئے نیم خودمختارتھیںکیونکہ ان ریاستوں کے امور خارجہ، بیرونی دفاع اور مواصلات برطانوی حکومت کے تحت ہی تھے۔ ان ریاستوں کے لئے مرکزی پارلیمنٹ میں نشستیں بھی مقرر تھیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے لئے کونسل آف سٹیٹ میں تین جبکہ قانون ساز اسمبلی میں چار نشستیں تھیں۔ آزادی ہند کے قانون 1947 ء کے تحت قائم ہونے والی دو مملکتوں، ہندوستان اور پاکستان کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنا آئین بنانے تک 1935 ء کے ایکٹ کو مناسب ترامیم کے تحت اپنا سکتے ہیں ۔ اس ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت نیم خودمختارریاستوں کے والیوں کو مقرر کردہ اصولوں یعنی اپنے راجواڑوں یانیم خودمختارعلاقوں کے عوام کی مسلمان یاہندواکثریت کوبنیادبناکر پاکستان اورہندوستان دو میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، چنانچہ ڈوگرہ مہاراجہ کشمیر جوکٹرہندوتھانے کشمیریوں سے پوچھے بغیرمسلمہ اصولوں کی کھلم کھلادھجیاں اڑاکر امور خارجہ ، دفاع ، مواصلات اور ان سے منسلک معاملات کی حد تک ہندوستان کے ساتھ فراڈالحاق کیا جو گورنر جنرل ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ جب ریاست جموںوکشمیر میں امن بحال ہوگا، تو ریاست کے مستقبل کا فیصلہ عوام رائے شماری کے ذریعہ کریں گے، اسی اصول کا اعادہ سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قرار دادوں کے تحت بھی کیا، جو ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں ۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا بی جے پی کی اعانت سے اس دفعہ کے کالعدم قرار دلوانے کے بعدہوگایہ کہ وادی کشمیر میں سرکاری اراضی بھارتی باشندوں اور ہندوستان کے بے گھر لوگوں کو الاٹ کی جائیں گی اوروہ ریاستی باشندوں جیسے حقوق حاصل کر لیں گے۔ہندوستانی کارخانہ دار کارخانے لگانے کے بہانے سے وادی کشمیرکی سرکاری زمینیں حاصل کرکے ہندوستانی مزدوروں اور ماہرین کو یہاں آباد کریں گے۔ ہندو آبادیاں بسا کر سپین اور فلسطین جیسی کیفیت پیدا کرکے مکمل خانہ جنگی شروع ہو جائے گی، مسلم آبادی کے انخلاء اور بے خانماں ہو جانے سے پاکستان پر دبائو بڑھے گا، اوربھارت کے ناپاک قدم آزادکشمیرکی سرزمین کی طرف بڑھیں گے ۔اس لئے حکو مت پاکستان کو فوری طور پرعالمی اداروں ، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سمیت اس کے دیگر اداروں کے علاوہ یورپی یونین، سارک، G8، امریکہ اورٹرمپ کوتازہ ترین ثالثی کی پیشکش یاددلانی چاہئے ۔ برطانیہ، روس، چین ، عرب دنیا اور تمام ایٹمی طاقتوں سے سرکاری طور پر رجوع کرنا چاہئے، جو اس کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اس کا فوری ادراک کریں ایسا نہ ہو کہ پھر وقت نہ ملے۔