جب جذبہ آزادی سینے میں گدازبن کراترتاہے ،توحرمان زدہ انسانوںکے جذبات برانگیختہ ہوجاتے ہیں ۔ان میںشعور بیدارہوجاتا ہے اوروسعتِ فکر و خیال کے ساتھ ساتھ ان میں افکاروخیالات کی پاکیزگی عطاہوتی ہے ۔ جس قوم کے نوجوان سینہ سپر ہوکر ظالم اور جابر کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہوں دنیا کی کوئی طاقت اسے زیر نہیں کرسکتی۔’’حوصلہ ہے تو ہر اک راہ گزر روشن ہے‘‘۔ حضرت علامہ نے کیاخوب فرمایا ؎ لاالہ گوئی بگوازروئے جاں تاز اندام توآیدبوئے جاں ترجمہ!اے بیٹے جب تولاالہ الا اللہ کہتاہے توصرف زبان سے نہیںبلکہ دل کی گہرائیوںسے کہواورخودی یاضمیرکی طرف سے کہوتاکہ تیرے وجودسے خودی اورزندہ ضمیری کی خوشبوآسکے۔ کشمیر میں جواعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عسکری محاذ پر صف بندی کررہے ہیںوہ کمپیوٹر، نظام تجارت، سیاسیات اور دوسرے علوم میں اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہیں۔وہ ایک مقدس اورعظیم جدوجہد کر رہے ہیں اس لئے بھارت قتل وغارت اور جبر و استبداد کی دیگر کارروائیوں کے ذریعے ان کے حوصلے ہرگز پست نہیں کرسکتا۔ کشمیری نوجوان اپنے گرم لہو سے تحریک آزادی کی آبیاری کر رہے ہیںاوراعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہتھیار اٹھانے کوراہ سعادت سمجھتے ہیں۔ ارض کشمیرمیں بھارتی بربریت کی ہردن ایک نئی داستان سامنے آجاتی ہے۔ ایسے کشمیرکے نوجوانوں کے پاس بندوق ایک آخری سہارا رہ جاتا ہے۔ کشمیر میں آج جو نوجوان قابض بھارتی فوج کے خلاف بندوق تھام رہے ہیں، وہ نہ صرف آسودہ حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ یونیورسٹیوں سے ڈگری یافتہ بھی ہیں۔بقول شاعر ہم کو ہو جائے اگر اپنی حقیقت کا شعور سارا افسوں خانہ سودوزیاں جل جائے گا کشمیر میں ’’پوسٹر بوائے ‘‘ کہلانے والے برہان وانی کی جوتصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں ان تصاویر نے کشمیر کے نوجوانوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے۔ان تصاویرکے باعث کشمیر کی عسکری جدوجہدمیں ایک نیااضافہ اس وقت دیکھنے کوملاکہ جب حیرت انگیز طور پر کشمیرکے پی ایچ ڈی اسکالرز قلم وقرطاس کی بجائے سیف والجہادکے ساتھ سامنے آنے لگے اور اپنا دنیاوی کیرئیر تج کر بندوق تھامنے چل پڑے ۔قابض بھارتی فوج کے ظلم وجوراورنوجوانان کشمیرکے مسلمانانہ وضع قطع کے باعث انہیں نشانہ بناکرابدی نیندسلانے،انکی روح کو گھائل اور انا کو مجروح کرنے والے تضحیک اورتحقیر آمیزسلوک نے کشمیرکے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی کایا پلٹ میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ بھارت نے کشمیر کی تحریک مزاحمت کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ کیا اس کی بنیاد کئی مغالطے تھے ۔کشمیرکے نوجوانوں کامسلح ہوکرقابض فوج کے ساتھ رزم گاہیں سجانے کوبھارت نے ہمیشہ بے روزگاری کو ایک اہم مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔لیکن کشمیرکے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی عسکری محاذمیں شامل ہو نے سے بھارتی پروپیگنڈے کی ہانڈی پیچ چوراہے ٹپخ کر اس تاثر کاابطال کرڈالاکہ کشمیر کی تحریک آزادی بے روزگاری کا نتیجہ ہے ۔ مسئلہ کشمیرکی تاریخ سے واقف ہرایک متنفس جانتاہے کہ بھارت اصل اوربنیادی مسئلے سے انحراف کرتے ہوئے کشمیریوں کے مسئلہ آزادی کومسئلہ بے روزگاری قراردے کردنیاکے رائے عامہ کوگمراہ کرنے کی کوششیں کررہاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے نے اپنی رپورٹس میں کبھی یہ نہیں کہاکہ بھارت کشمیری نوجوانوں کے روزگار کا مسئلہ حل کرکے کشمیری نوجوان کو مطمئن کر سکتا ہے ۔اس طرح بھارتی مغالطے ہوا میں تحلیل ہوگئے۔آزادی کی جدوجہدنے کشمیر کی نسلوں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔کشمیر میں ہر دور اور ہر دہائی میں اس نسل کے نام جدا اور جدوجہد کے انداز الگ تو ہو سکتے ہیں اور مختلف ادوار میں جاری رہنے والی مزاحمت میں رفتاراور شدت کی کمی بیشی کا فرق ہوسکتا ہے مگر کشمیری سماج کبھی مزاحمت اور جدوجہد سے خالی ہوا ہوتاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔مسئلہ کشمیر کی گہری اور وسیع جہات اس بات کی متقاضی ہیںکہ پاکستان اور بھارت کھلے دل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ اختیا رکریں ۔کشمیر کا سلگتا ہوا مسئلہ برصغیر کے خرمن امن کو کسی بھی وقت بھسم کر سکتا ہے ۔ سری نگرمیںکٹھ پتلی سرکارکے اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں تحریک آزادی کی جدوجہد میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا،جس کی وجہ سے کشمیریوں کی آزادی کشمیرکی تحریک کو ایک نئی توانائی ملی ہے جو چند برس قبل کمزور ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔2018ء میں 191کشمیری نوجوانوں نے بھارت کے خلاف جاری تحریک آزادی کے عسکری محاذ میں حصہ لیا یہ تعداد 2017ء سے 52فیصد زیادہ تھی۔ 2017ء میں 126نوجوانوں نے تحریک آزادی کشمیرکے عسکری محاذ میں حصہ لیا تھا ۔بھارتی تسلط سے آزادی تک جدوجہد جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم واستقلال بزبان حال کہتاہے کہ کشمیری اپنے شہداکے مقدس لہو کو ہرگز رائیگاں نہیں ہونے دیں گے اور رب کے فضل وکرم سے وہ وقت زیادہ دورنہیں کہ جب انہیں بھارت کی جبری اور ظاملانہ غلامی سے ضرور آزادی مل جائے گی۔ کشمیری نوجوانوں میں سے پروفیسر محمد رفیع بٹ کشمیریونیورسٹی سرینگرکے ایک ایسے پروفیسر تھے جنہیں طلبا ء بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ میں موجود ان کے ساتھی انہیں قابل اعتماد قرار دیتے تھے ،انہوں نے کنزیومرزم پر تحقیق کی تھی جس کی بنیاد پر انہیں بھارت کے علاوہ کہیں بھی اہم عہدہ مل سکتا تھا۔ تاہم گزشتہ برس پروفیسرمحمد رفیع بٹ یونیورسٹی آف کشمیر کی ایک فیکلٹی میٹنگ میں شرکت کرنے کے بجائے مجاہدین کی ایک نشت میں شریک ہوئے۔ان کے اہلِ خانہ کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اگر وہ یونیورسٹی نہیں گئے توپھر کہاں گئے؟ لیکن محض دویوم بعد جب ان کے اہل خانہ ،دوستوں، ساتھیوں اورانکے شاگردوں نے ٹی وی سکرین پرانکے جسدخاکی کودیکھاکہ جسے کئی فائرلگ چکے تھے اورجوخون میں لت پت پڑی تھی تو ان کی تشویش حیرت میں بدل گئی تھی۔انہوں نے اپنی شہادت سے دویوم قبل تحریک آزادی کشمیر کے عسکری محاذمیں شمولیت اختیار کی تھی اورقابض بھارتی فوج سے جھڑپ کے دوران شہید ہوئے ۔پروفیسرمحمد رفیع بٹ کااپنے دنیاوی کیریئرکوتج دیکرتعلیم کا شعبہ چھوڑ کر ہتھیار اٹھانابھارت کے لئے ایک پریشان کن بات تھی۔31سالہ نوجوان پروفیسرنے یونیورسٹی آف کشمیر سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور اپنی قابلیت اورصلاحیت کی بنیاد پروہیں بطور پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔