موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی کشمیری مجاہدکی ماں نے جلدی سے فون اٹھایاکہ میراشیردل بیٹاہوگاتودوسری طرف سچ مچ میں اس کالخت جگرہی بول رہا تھا۔ السلام علیکم امی جی ہاشم بول رہاہوں۔۔۔۔وعلیکم السلام میری جان۔۔۔۔۔امی جی! میںقابض بھارتی فوج کے محاصرے میں آچکا ہوں آپ سے التجاہے کہ مجھے میری تقصیریں معاف کردینا۔۔۔میری جان! میں تب معاف کروں گی کہ جب تم بھارتی فوج کے سامنے سرینڈرنہیں کروگے ان سے لڑتے ہوئے گولی سینے پرکھائوگے۔۔۔۔امی جی! میں ایک بہادرکشمیری ماں کادودھ پی کرجوان ہواہوں اس دودھ کے طفیل میری سرشت میں دشمن کے سامنے ہتھیارڈالنا ہرگز نہیں۔۔۔۔میری جان !تم نے تمہارے ایمان افروزاس عزم ویقین کے برملا اظہارنے میرے جسم اور،روح کوتسکین بخشی،بس مجھے تم سے یہی وفاچاہئے تھی تمہارے یہی آخری الفاظ سننے کے لئے میں نے تمہیں پالاتھا۔۔۔۔۔امی جی! کل میرے جنازے میں کھڑے ہوکرجنازے میں موجود لوگوں سے میری طرف سے معذرت کرناکہ کسی کو میری وجہ سے کوئی تکلیف پہنچی ہووہ مجھے معاف کر دے۔۔۔۔۔۔ میرے لعل !میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری وصیت پرکمربستہ ہوکرعمل کروں گی۔۔۔۔۔ امی جی! اچھامیںپھرسرخروہوکراپنے رب کے پاس چلا جاتا ہوںوہی آپ سب کاحامی و ناصر ہے۔اس مکالمے کے بعدکشمیری مجاہدہاشم قابض بھارتی فوج کودعوت مبازرت دیتاہے لیکن بزدل بھارتی فوج ہاشم اور اسکے چارساتھی مجاہدین کے ساتھ دوبدومعرکہ لڑنے اورتاب مقاومت نہ لانے کے بجائے آرپی جی سیون راکٹ چلا کر اور بے محابہ گولہ باری کرکے اس گھرکومسمارکرتی ہے۔ یوں جنوبی کشمیرکے ضلع کولگام کے قاضی گنڈ علاقے میںاپنی ماں کا جگر گوشہ اس کی آنکھوں کا تارا، اس کا لعل و گہرہاشم پنے چاروں ساتھیوں کے ساتھ شہادت کا جام نوش کرتاہے۔ بلاشبہ کشمیر کی مائیں صبروثبات کا کوہ گراں ہیں۔ کشمیر کی یہی وہ مائیں ہیں کہ جوآج کی رنگین دنیا اور دھن اوردولت کی ریل پیل کے دورمیں تمام آسودگیوں کی حامل اپنی اولاد کو زندگی کا اصل اور بنیادی مقصد سمجھاتی ہیںاوروہ یہ کہ دشمن دین کے ساتھ معرکہ ٔہنگام سلیقہ مندی سے ڈٹے رہناچاہئے۔ خوش قسمت ہیں وہ اولاد جن کو ایسی مائیں نصیب ہوں‘ جو حضرت اسماء بنت ابی بکراورحضرت خنساء جیسی اولوالعزم صحابیات کے نقش قدم پرہوں۔فرط محبت کے باوصف والدین اپنی اولاد کی اس لئے بھی پروش کرتے ہیں کہ گبروجوان بن کرکبرسنی اوربڑھاپے میں وہ ان کاسہارابن سکے ۔ مگر کشمیرکی مائیں اپنے گبرو جوان کومسلمانوں کے ازلی وابدی دشمن بھارت کے ساتھ لڑانے کے لئے پالتی اورپرورش کرتی ہیں۔ جو انہیں جادہ حق میں سر کٹانے کاسبق پڑھاتی ہیں سرجھکانے کاہرگزنہیں ۔ کشمیرمیں جاری معرکہ حق و باطل کامطالعہ کریں توآپ کوکشمیری مائوں کایہی مزین کردار صاف دکھائی دے گا۔ یہی کرداروعمل اس امر کو الم نشرح بناتاہے کہ بھارت سے مکمل آزادی کشمیریوں کا مقدرہے آخرفتح ان کی اور باطل کو شکست ہوگی ۔ یہ کشمیر کی مائوں کی اسی پرورش اور تربیت کانتیجہ ہے کہ کشمیری نوجوان قابض بھارتی فوج سے انتقام لینے کے لیے جہادکا راستہ اختیارکرتے ہیں اوراس راہ حق میںان کا جذبہ مقاومت بہت قیمتی اور قابل دید ہے ۔وہ بھارتی طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر علیٰ الاعلان مبازرت کی دعوت دیکر دنیامیں سربلند اور اللہ تعالی کے ہاں سرخروہوجاتے ہیں۔ قابض بھارتی فوج کے خلاف لڑنے والے معرکوں میں وہ بخوشی شہادت کاجام پی لیتے ہیںاوراپنے ماتھے کے ان جھومروں کے جنازوں میںلوگوں کی اتنی بڑی تعدادہوتی ہے کہ پچاس ،پچاس مرتبہ ان کی نمازجنازہ پڑھی جاتی ہے ۔بھارتی درندہ صفت فوج ایک مجاہدکو شہید کر تی ہے تواس کی شہادت دیگر نوجوانوں میں یہ جذبہ مقاومت پیداکردیتی ہے کہ وہ اس شہید کے نقش قدم پر چلیں۔سچی بات یہ ہے کہ عظیم شہادتوں نے تحریک آزادی کشمیرکے یے مہمیز کا کام کیااور تازہ و نوجوان خون نے آزادی کی منزل کو قریب ترکردیاہے۔شہدائے کشمیرکایہ پیغام نوشتہ دیوار ہے کہ بھارت اسلام اورمسلمانوں کاسب سے بڑا اورازلی وابدی دشمن ہے ۔ کشمیرمیںقربانیوں کی طویل داستان ہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے بلاشبہ ان عظیم قربانیوں کے پیچھے کشمیری مائوں کاعملی کردارکارفرماہے ۔وہ ان پڑھ ہونے کے باوجوداپنے گبروجوان کویہ سمجھاتی ہیں کہ جب تک چراغ مصطفوی سے شراربولہبی ستیزہ کار رہے گا، یہ مشق ستم جاری رہے گی۔گذشتہ 28برسوں سے اس امرپر آسمان گواہ ہے کہ بھارتی غلامی کی زنجیروں کوتوڑنے کے لئے شہداء کے پنگھوڑوں کو جھولا دینے والی بہادرکشمیری ماں کی کوکھ کبھی بنجر نہیں ہونے پائی اورانکی پرورش سے ہی انکے بیٹوںنے اپنے سرخ اور نوجوان خون سے سرزمین کشمیر پر بھارت کے جابرانہ قبضے کونامنظورثابت کرکے سچائی کا حق اداکیاہے۔ ماں تو اولاد پر قربان ہوجایا کرتی ہیں لیکن قرون اولیٰ کی مثالیں قائم کرکے کشمیرکی مائیں اپنی اولادکوراہ حق میں اللہ کی رضاکے لئے قربان کرنے میں فخروانبساط محسوس کرتی ہیں۔ ماں کی محبتوں اور خلوص کی پاسداری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کرہمیں ماں باپ کے آگے اف تک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ماں کی محبت و ممتا وہ گہرا سمندر ہے،جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکانہ ناپ سکے گا۔ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی۔ ایسا وجود جس میں چاہت،دعا، محبت، ایثار، قربانی، رہنمائی، بلا غرضی، معصومیت، سچائی، پاکیزگی، خلوص اور وفا کے رنگ ہوںاسے ماں کہتے ہیں۔ یہ وہ ہستی ہے جو دل کا سکون اور روح کی ٹھنڈک ہے۔ یہ سب ماں کی خوبیوں کی صرف ایک جھلک ہے، ورنہ اس کی خوبیاں تو اس قدر ہیں کہ لفظ ختم ہوجائیں مگر ماں کی تعریف ختم نہ ہو۔جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تواس کے لئے خود کو وقف کر دیتی ہے۔ جب بچہ بول بھی نہیں پاتا اس کی ضرورت کوسمجھتی اور پورا کرتی ہے پھر اسے بولنا سکھاتی ہے بھر انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے،اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے ،عمر کے ہر دور میں ساتھ دیتی ہے اور دعاگو رہتی ہے۔ رب الکریم نے جب ماں کی تخلیق کی تو اسے رحمت کی چادر، چاہتوں کے پھول، دعائوں کے خزانوں، زمین و آسمان کی وسعتوں، جذبوں، چاہتوں، پاکیزہ شبنم، دھنک کے رنگوں، چاند کی ٹھنڈک، خلوص، رحمت، رافت ،راحت، برکت، عظمت، کریمی النفسی ،حوصلے اور ہمت سمیت تمام اوصاف سے مزین کیا، یہاں تک کہ اس کے قدموں میں جنت رکھ دی- ماں احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ بے مثال مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے حالات اور موسم کی سختیاں خودسہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ اپنی اولاد کے لیے فکر ودعاکرتے گزرتا ہے۔ماں ایک ایسی نعمت ہے جس کی خوبی کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ ممتا کے جذبے سے سر شار ایثار و وفا کا پیکراورپر خلوص دعائوں کی پوٹلی کے اس روپ کی خوبی کو بیان کرناسمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔